کراچی —
- فلم مبصرین کا کہنا ہے کہ فلموں کے لیے بہترین سمجھے جانے والے تہوار پر صرف ایک پاکستانی فلم کی ریلیز تشویش ناک ہے۔
- ماضی میں بھی مقامی فلموں کے ساتھ ہالی ووڈ فلموں کی ریلیز پر تنازع سامنے آچکا ہے۔
- سال 2023 میں عید الفطر اور عید الاضحی پر پیش کی گئی کوئی پاکستانی فلم کاروبار نہیں کرسکی تھی
پاکستان میں عید کے تہوار کو سنیما کے لیے بزنس سیزن سمجھا جاتا رہا ہے۔ ملک کی تاریخ میں سب سے کامیاب فلمیں بھی عید کے موقعے پر ریلیز ہوتی آئیں۔ لیکن اس برس بڑی اسکرینز پر ہر طرف غیر ملکی فلمیں چھائی ہیں۔
اس بار عید الفطر کے موقعے پر پاکستانی سنیما گھروں میں صرف ایک اردو فلم ریلیز کی جائے گی جب کہ اس کے برعکس چھ انٹرنیشنل فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔
اس ریس میں پاکستان کی نمائندگی ہدایت کار وجاہت رؤف کی فلم ‘دغاباز دل’ کررہی ہے جس میں مہوش حیات اور علی رحمان خان مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہدایت کار ابو علیحہ کی ’ٹکسالی گیٹ‘ کا بھی ڈائریکٹرز کٹ مخصوص سنیما گھروں میں پیش کیا جائے گا جب کہ یہ فلم فروری کے مہینے میں ریلیز ہوئی تھی۔
عید کے موقعے پر پاکستانی سنیماؤں میں جن چھ بین الاقوامی فلموں کی نمائش ہوگی ان میں ایک انڈونیشین ہارر فلم ’پیماندی جنازہ‘ اور پانچ امریکی فلمیں شامل ہیں جن میں سے تین اس وقت انٹرنیشنل باکس آفس پر ٹاپ فائیو فلموں میں موجود ہیں۔
ان فلموں میں سے گوڈزیلا ایکس کونگ دی نیو ایمپائر، اور گوسٹ بسٹرز فروزن ایمپائر کو مارچ میں جب کہ دی فرسٹ اومن کو پانچ اپریل کو دنیا بھر میں ریلیز کیا گیا تھا لیکن رمضان المبارک کی وجہ سے ان کی ریلیز کو پاکستان میں روک دیا گیا تھا۔
پاکستانی شائقین عید الفطر کے موقع پر ان فلموں کے ساتھ ساتھ ہارر فلموں ’’ ونی دی پوہ بلڈ اینڈ ہنی ٹو‘ اور ’ایلجی گاڈ آف پین‘ سے بھی محظوظ ہوسکیں گے۔
فلم مبصرین کا کہنا ہے کہ فلموں کے لیے بہترین سمجھے جانے والے تہوار پر صرف ایک پاکستانی فلم کی ریلیز تشویش ناک ہے۔
سال 2022 میں عید الفطر کے موقعے پر ایک دل چسپ صورتِ حال اس وقت پیدا ہوگئی تھی جب بیک وقت چار اردو فلموں کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں مجموعی طور پر اسکرینوں کی تعداد 150 سے بھی کم ہے وہاں چار فلموں کی ایک ساتھ ریلیز کسی ایک کے لیے بھی اچھی ثابت نہیں ہوئی۔
جب ان چار فلموں میں سے تین باکس آفس پر کامیابی نہ سمیٹ سکیں تو ان کے پروڈیوسرز یاسر نواز ، عدنان صدیقی اور وجاہت رؤف نے ہالی وڈ کی فلم ‘ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس’ کو مورد الزام ٹھہرایا جو ان فلموں کے ساتھ پاکستانی سنیماؤں پر ریلیز ہوئی تھی۔
ان تینوں فلموں کے پروڈیوسروں کا مؤقف تھا کہ ان کی فلموں کے شوز کم کرکے ہالی وڈ فلم کے شوز کی تعداد بڑھائی گئی ہے جس سے مقامی فلموں کا بزنس متاثر ہوا۔
اس الزام کے جواب میں سنیما مالکان کا کہنا تھا کہ شائقین کی بڑی تعداد ہالی وڈ فلم دیکھنے آرہی ہے اسی لیے وہ باکس آفس پر بہتر بزنس کررہی ہے۔
ہدایت کار وجاہت رؤف اس وقت بھی ڈاکٹر اسٹرینج کی ریلیز مؤخر کرنے کے حق میں نہیں تھے اور آج بھی نہیں ہیں۔ البتہ انھیں اپنی فلم ’پردے میں رہنے دو‘ کے ساتھ ’اچھا سلوک نہ ہونے‘ کی شکایت تھی۔
اس بار بھی عید الفطر پر آنے والی فلم ’دغا باز دل‘ کے ہدایت کار وجاہت رؤف ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالات آج بھی دو سال پہلے والے ہیں۔ اس مرتبہ نئی ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم صرف ایک ہے جب کہ سنیما پر نمائش کے لیے سینسر سے پاس ہونے والی فلموں کی تعداد نو کے لگ بھگ ہے جن میں زیادہ تر انگریزی فلمیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں زیادہ فلموں کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ان کا مؤقف آج بھی وہی ہے کہ جس فلم کی ڈیمانڈ زیادہ ہو اس کے شوز کی تعداد بھی زیادہ ہونی چاہئے۔
دو سال قبل عید الفطر پر ریلیز ہونے والی واحد کامیاب اردو فلم ‘گھبرانا نہیں ہے’ کے پروڈیوسر حسن ضیا کا موقف اس وقت بھی یہی تھا کہ اچھی فلم شائقین کو سنیما کھینچ کر لاتی ہے۔ وہ آج بھی سمجھتے ہیں کہ ہالی وڈ کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب کہیں میلہ لگا ہوتا ہے تو اس میں تمام اسٹال چل جاتے ہیں۔ اس پر یہ کہنا درست نہیں ہوتا کہ کسی ایک کی وجہ سے آپ کا نقصان ہوا۔
حسن ضیا نے کہا کہ 2015 میں جب بھارتی فلم ’بجرنگی بھائی جان‘ کی پاکستانی سنیما میں کامیابی سے نمائش جاری تھی تو اس عید الفطر پر انگریزی فلم ’اینٹ مین‘ کے ساتھ دو پاکستانی فلمیں ’بن روئے‘ اور ’رانگ نمبر‘ بھی سنیما گھروں میں پیش کی جارہی تھیں۔
انہوں ںے کہا کہ ان چاروں میں سے ایک فلم بھی باکس آفس پر ناکام نہیں ہوئی تھی جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کانٹینٹ اچھا ہو تو لوگ اسے دیکھنے ضرور آتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دو سال پہلے ڈاکٹر اسٹرینج کے سیکول پر الزام لگانا درست نہیں تھا کیوں کہ اس سیریز کے مداح ہر حال میں اسے دیکھنے آتے چاہے وہ عید الفطر پر لگتی یا اس کے ایک ہفتے کے بعد!
حسن ضیا کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں سنیما بزنس میں فٹ فال کی اہمیت کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ جب سنیما کا بزنس چل رہا ہوتا ہے اور ایک اچھی فلم کی وجہ سے لوگ سنیما آرہے ہوتے ہیں تو اس سے دوسری فلموں کا فائدہ ہوتا ہے۔ چاہے دوسری فلم ٹائی ٹینک ہی کیوں نہ ہو۔
ان کے خیال میں بھارتی فلموں کی نمائش کے وقت سنیما کا بوم تھا کیوں کہ شائقین کو ہر قسم کی فلم دیکھنے کو ملتی تھی۔ اب سنیما اس لیے ویران ہوگئے ہیں کیوں کہ صرف انگریزی فلمیں لگائی جاتی ہیں جن کو دیکھنے والے افراد مجموعی شائقین کا 13 یا 14 فیصد حصہ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ سنیما میں فلم دیکھنے کے ساتھ ساتھ انجوائے کرنے آتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ایک مرتبہ پھر انٹرٹینمنٹ کی طرف جائیں تاکہ لوگ دوبارہ سنیما کا رخ کریں۔
مبصرین کی رائے میں پاکستانی سنیما میں کم فلموں کی نمائش کے پیچھے سنیما مالکان اور فلم پروڈیوسرز دونوں کا ہاتھ ہے۔ سنیما مالکان ٹکٹوں کے دام بڑھانے اور سنیما کو ایک مہنگی تفریح بنانے کے پیچھے ہیں تو پروڈیوسرز غیرمعیاری فلمیں پیش کرکے شائقین کو سنیما سے دور کر رہے ہیں۔
گزشتہ سال عید الفطر پر چار پاکستانی فلمی منی بیک گارنٹی، دادل، دوڑ اور ہوئے تم اجنبی نمائش کے لیے پیش کی گئی تھیں جس میں سے ایک بھی باکس آفس ہر کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔
اسی طرح عید الاضحیٰ پر چھ اردو فلمیں پیش کی گئیں جن میں سے چھ کی چھ ناکام ہوئیں۔
ان فلموں میں ایک اینی میٹڈ فلم ’الہ یار اینڈ دی ہنڈریڈ فلاورز آف گاڈ‘ کے ساتھ ساتھ جو پانچ اردو فلمیں ریلیز ہوئیں ان میں تیری میری کہانیاں، وی آئی پی، بے بی لشس، آر پار اور مداری شامل تھیں۔
فلم یا ٹیلی فلم؟
ایک اور پاکستانی ’فلم‘ جسے سنیما میں نمائش کے لیے تو پیش کیا جارہا ہے لیکن اس کے مرکزی کردار ادا کرنے والے دونوں اداکاروں نے اس کی تشہیر کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیا ہے۔
یہ فلم ’ہم تم اور وہ‘ ہے جس کے بارے میں اداکار جنید خان اور آمنہ الیاس کا مؤقف ہے کہ انہوں نے ٹیلی فلم سمجھ کر اس میں کام کیا تھا جسے اب ایک فیچر فلم بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
دونوں اداکاروں نے انسٹاگرام پر لگائی گئی پوسٹ میں لکھا کہ انہوں نے ’چڑا چڑی‘ کے نام سے بننے والی ٹیلی فلم میں کام کیا تھا جسے اب فلم کے پروڈیوسر ’ہم تم اور وہ‘ کے نام سے ریلیز کررہے ہیں۔
ان کا موقف تھا کہ جس پراجیکٹ کے لیے انہیں سائن کیا گیا تھا اسے ٹیلی فلم کی طرح شوٹ کیا گیا اور اس کی کہانی، شوٹنگ کی تکنیک اور اداکاری سب کچھ ٹیلی فلم کے حساب سے تھی۔
دونوں اداکاروں نے اپنے اپنے انسٹاگرام پوسٹوں میں معاہدے کی خلاف ورزی پر پروڈیوسر نعمان خان اور ڈسٹربیوٹرز کے خلاف قانونی کارروائی کا بھی اعلان کیا۔
اس تنازع کے باوجود فلم کے پروڈیوسر نعمان خان دیگر اداکاروں کے ساتھ اس کی تشہیر میں مصروف ہیں، جس میں سے ایک ویڈیو میں آمنہ الیاس کے تعریفی کلمات بھی شامل ہیں۔