کراچی —
سابق ٹیسٹ کرکٹر سابق کپتان پاکستان کرکٹ ٹیم اور 1992 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے رکن رمیز راجہ بالآخر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے یہ چارج سابق پی سی بی چیئرمین احسان مانی کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد سنبھالا اور اس کی منظوری پی سی بی کے گورننگ بورڈ نے دی۔
پیر کو لاہور میں اپنی پہلی ہی پریس کانفرنس میں رمیز راجہ نے آئندہ ماہ شیڈول آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے سابق آسٹریلوی بلے باز میتھیو ہیڈن اور سابق جنوبی افریقن بالر ورنن فلینڈر کو کوچز مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کیا رمیز راجہ کی محض تقرری سے پاکستان کرکٹ کو درپیش مسائل حل ہو جائیں گے یا انہیں کچھ ایسے فیصلے کرنا ہوں گے جو کسی کو پسند تو کسی کو نا پسند ہوں گے۔ انہیں کن کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ انہیں کیوں کر حل کر سکیں گے، جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کو ورلڈ کپ سپر لیگ سیریز بنانے کا چیلنج
اس وقت نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے اور اس کا تمام سہرا سابق چیئرمین احسان مانی اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ لیکن جہاں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی ہو رہی ہے وہیں اس سیریز کو ورلڈ کپ سپر لیگ کے بجائے دو ممالک کی باضابطہ سیریز قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ پاکستان کے پاس ڈی آر ایس (ڈیسیژن ریویو سسٹم) کی سہولت نہیں جس کے بغیر آئی سی سی اس سیریز کو سپر لیگ میں جگہ نہیں دے سکتی۔
کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ ڈی آر ایس کے بغیر سیریز کا درجہ بدل جائے گا یا ان کے حکام نئے چیئرمین کے استقبال کی تیاری میں یہ اہم کام کرنا بھول گئے۔ اس کا فیصلہ تو بعد میں ہو گا۔
کرکٹ ماہرین کے مطابق فی الحال رمیز راجہ کو اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے 17 ستمبر سے شروع ہونے والی تین ون ڈے اور پانچ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز پر مشتمل سیریز کے اسٹیٹس کا مسئلہ حل کرنا چاہیے۔
یہ بات درست ہے کہ اب سیریز کے آغاز میں چار دن کا ہی وقت رہ گیا ہے، لیکن اگر ذرائع کے مطابق رمیز راجہ چیئرمین بننے سے پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اسکواڈ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں تو یہاں بھی وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔
Mr Ramiz Raja has been elected unanimously and unopposed as Pakistan Cricket Board’s 36th Chairman for a three-year term in a Special Meeting presided over by PCB Election Commissioner, Mr Justice (retd) Sheikh Azmat Saeed.More details: https://t.co/IIQDsUS2U9 pic.twitter.com/MMFAc8thnk— PCB Media (@TheRealPCBMedia) September 13, 2021
اس ریجن میں ڈی آر ایس فراہم کرنے والی کمپنی فی الحال انڈین پریمیئر لیگ میں مصروف ہے جس کی تیاریاں متحدہ عرب امارات میں زور و شور سے جاری ہیں۔ رمیز راجہ ان چار دنوں میں اس معاملے کو حل کر کے اگر اس سیریز کا اسٹیٹس بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اپنے دور کا آغاز فاتحانہ انداز میں کرسکیں گے۔
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اسکواڈ میں مستحق کھلاڑیوں کو ان کرنے کا چیلنج
پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے رمیز راجہ کی بطور چیئرمین تقرری سے قبل ہی اگلے ماہ ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق اعلان سے نہ تو شائقینِ کرکٹ خوش ہیں اور نہ ہی کپتان بابر اعظم۔
بطور چیئرمین پی سی بی، رمیز راجہ کا دوسرا چیلنج ہو گا کہ شرجیل خان، فخر زمان اور عثمان قادر جیسے اہل کھلاڑیوں کو فائنل اسکواڈ میں اور خوش دل شاہ، آصف علی اور شاداب خان جیسے آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں کو ریزرو کھلاڑیوں میں جگہ دلوائیں۔
نئے چیئرمین پی سی بی سے کیا توقعات ہیں؟
کرکٹ ماہرین کے مطابق رمیز راجہ کو محمد حفیظ جیسے کھلاڑیوں سے بیٹھ کر بات کرنا ہو گی۔ اس وقت کرکٹ بورڈ نے کیربیئن پریمئر لیگ میں شرکت کرنے والے محمد حفیظ کو جہاں وطن واپس پاکستان بلا لیا وہیں انہی کی طرح ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں جگہ بنانے والے عماد وسیم کو ویسٹ انڈیز میں رہ کر کیربیئن پریمیئر لیگ مکمل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔
محمد حفیظ جو خود بھی ایک سینئر کھلاڑی اور سابق کپتان ہیں، وہ بورڈ سے اس وقت سخت ناراض ہیں کیوں کہ انہیں بھی پوری لیگ کھیلنے کا این او سی جاری کیا گیا تھا، لیکن بورڈ کے عہدے دار ان کے ساتھ مختلف رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ ماضی میں رمیز راجہ کے تبصروں پر کڑی تنقید کرنے والے محمد حفیظ کے لیے یہ وقت کٹھن ضرور ہے، لیکن رمیز راجہ ان کا اور ٹیم سلیکشن کا مسئلہ حل کر کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی انٹرنیشنل کرکٹ میں تنہائی ختم کرنے کا چیلنج
ایک طرف دنیا بھر کی کرکٹ ٹیمیں پاکستان کا دورہ کر رہی ہیں، تو دوسری جانب پاکستان ٹیم دوسری ٹیموں کے مقابلے میں ون ڈے کرکٹ اور ٹیسٹ کرکٹ میں پیچھے ہے، میچوں کی تعداد میں بھی اور رینکنگ میں بھی۔
قابل بھروسہ فواد عالم کو انٹرنیشنل کرکٹ سے دور رکھنے کا ذمے دار کون تھا
رمیز راجہ، جو بطور مبصر پاکستان کرکٹ بورڈ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں، ان کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے بات کریں تاکہ پاکستان کو زیادہ ٹیسٹ اور ون ڈے میچز مل سکیں۔ اس سے قبل جب وہ پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو تھے تب انہوں نے پاکستان اور بھارت کی سیریز کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اب بھی وہ 14 برس سے نہ ہونے والی پاک بھارت سیریز کے سلسلے کو دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔
ڈومیسٹک کرکٹ کو تباہی سے ترقی کی طرف واپس لانے کا چیلنج
سابق چیئرمین احسان مانی کے دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ ڈومیسٹک کرکٹ کے اسٹرکچر میں چند تبدیلیاں لایا تھا جو ان سے قبل ہونے والی تبدیلیوں سے کافی مختلف تھیں۔ ان تبدیلیوں کے آنے سے کئی فرسٹ کلاس کرکٹرز بے روزگار ہو گئے تھے کیونکہ 22 کروڑ عوام کے ملک میں صرف چھ ٹیموں کے ہونے سے لا تعداد کھلاڑیوں نے حق تلفی کی شکایات کی تھیں۔
یہ الگ بات ہے کہ یہ تبدیلیاں رمیز راجہ کے سابق کپتان اور موجودہ پی سی بی پیٹرن ان چیف وزیرِ اعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق تھیں۔ لیکن اگر کوئی عمران خان کو اس سسٹم کے منفی پہلوؤں سے آگاہ کر سکتا ہے اور انہیں نئے اور بہتر ڈومیسٹک سسٹم کے لیے قائل کر سکتا ہے تو وہ رمیز راجہ ہیں۔
اپنے کپتان کی طرح وہ خود بھی اسی سسٹم سے پاکستان کرکٹ ٹیم میں آئے جسے پچھلے بورڈ نے بوسیدہ قرار دیا تھا اور اگر رمیز راجہ ڈپارٹمنٹ کرکٹ بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو پاکستان میں کرکٹرز کے لیے اس سے بڑا کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا۔