بھارتی اداکار راجیش کھنہ کو بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار کہا جاتا ہے لیکن 1991 میں جب انہوں نے عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو یہ شہرت ان کے کام نہیں آ سکی۔ — کراچی
راجیش کھنہ 1991 میں ہونے والے بھارتی انتخابات میں کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے انتہائی تجربہ کار سیاست دان لال کرشن اڈوانی کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔
نئی دہلی کی اس نشست پر ‘کاکا’ کے نام سے مقبول سپر اسٹار راجیش کھنہ نے اپنے مدمقابل بی جے پی کے رہنما اڈوانی کا سخت مقابلہ کیا۔ اڈوانی کے مقابلے میں راجیش کھنہ کو صرف 1589 ووٹ کم ملے جس کی وجہ سے وہ کام یاب نہیں ہو سکے۔
مصنف یاسر عثمان راجیش کھنہ کی سوانح حیات ‘راجیش کھنہ دی ان ٹولڈ اسٹوری’ میں لکھتے ہیں کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت راجیش کھنہ کو اپنے حریف پر واضح برتری حاصل تھی جس کی تصدیق ریٹرننگ افسر نے بھی کی تھی۔
ان کے مطابق شام سات بجے تک ووٹوں کی گنتی میں راجیش کھنہ آگے تھے جس کی وجہ سے ایل کے اڈوانی کے ساتھیوں نے اپنے عقیدے کے مطابق مشکل ٹالنے کے لیے پڑھے جانے والے’ہنومان چالیسا‘ کا ورد شروع کر دیا تھا۔
"حتمی نتیجے کا وقت قریب آنے لگا تو راجیش کھنہ کے سپورٹرز جشن کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور گنتی کے وقت ان کا کوئی نمائندہ وہاں موجود نہیں تھا۔ کچھ ہی دیر بعد جب نتائج کا اعلان ہوا تو اڈوانی کو 1500 سے زیادہ ووٹوں کی لیڈ حاصل ہو گئی۔”
‘راجیش کھنہ دی ان ٹولڈ اسٹوری’ کے مصنف لکھتے ہیں کہ انتخابات میں ان کی شکست کی بنیادی وجہ ان کی سیاسی ناتجربہ کاری تھی۔ کیوں کہ حتمی نتیجے کے اعلان کے بعد راجیش کھنہ کے الیکشن افسر جگ پرویش چندرا نے انہیں چلینج نہیں کیا اور نہ ہی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔
مصنف کے مطابق راجیش کھنہ نے اس نتیجے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا لیکن اس وقت حتمی نتائج کا اعلان ہو چکا تھا۔ تاہم بعد میں انہوں نے اسی حلقے سے ضمنی انتخاب میں بھی حصہ لیا تھا، جہاں انہوں نے اداکار شتروگھن سنہا کو 25 ہزار ووٹوں سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔
راجیش کھنہ کی سیاست میں انٹری کیسے ہوئی؟
راجیش کھنہ کو 60 اور 70 کی دہائی کا سب سے کامیاب بالی وڈ اداکار کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 1991 میں بھارتی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن وہ 1984 سے کانگریس پارٹی کو سپورٹ کرتے آ رہے تھے۔
سن 1991 میں ہونے والے انتخابات میں پارٹی کے صدر اور سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی ہی راجیش کھنہ کو سیاست میں لے کر آئے تھے۔
یاسر عثمان کی کتاب کے مطابق راجیو گاندھی یہ تسلیم کرتے تھے کہ ان کی پارٹی میں ہر شعبے کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی وہ راجیش کھنہ کی مقبولیت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
راجیش کھنہ کے الیکشن سے ایک اور تاریخی یاد بھی جڑی ہے۔ 20 مئی 1991 کی صبح نئی دہلی میں راجیش کھنہ کو ووٹ دینے کے بعد راجیو گاندھی اور ان کی اہلیہ سونیا گاندھی نے جو تصویر کھنچوائی وہ ان دونوں کی اکٹھے آخری تصویر ثابت ہوئی۔
اس کی اگلی رات 21 مئی کو مدراس (موجودہ چنئی) کے قریب ایک جلسے میں ہونے والے خودکش حملے میں راجیو گاندھی کی موت واقع ہو گئی تھی۔
اگرچہ راجیش کھنہ بعد ازاں شترو گھن سنہا کو ضمنی انتخاب میں شکست دے کر لوک سبھا کے رکن بن گئے تھے لیکن اس دوران انہوں نے کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا۔ سیاست میں ان کی دل چسپی کم ہوتی گئی اور اگلے الیکشن سے پہلے ہی وہ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔
‘راجیش کھنہ دی ان ٹولڈ اسٹوری’ میں درج ہے کہ سپر اسٹار نے الیکشن سے قبل ‘ہندوستان ٹائمز’ کی رپورٹر گارگی پارسائی کو ایک رات فون کر کے کہا کہ وہ نئی دہلی کے صحافیوں کی سپورٹ نہ ملنے پر رنجیدہ ہیں۔
گارگی پارسائی کے مطابق راجیش کھنہ آواز سے نشے میں لگ رہے تھے لیکن انہوں نے پھر بھی سپر اسٹار کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انہیں اتنی ہی کوریج مل رہی ہے جتنی ان کے حریف کو دی جا رہی ہے۔
اگلی صبح راجیش کھنہ کے سیکریٹری نے صحافی سے گزشتہ رات کی جانے والی فون کال پر معذرت کی۔ لیکن معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ ضمنی انتخاب سے قبل بھی اس جیسا ایک اور واقعہ پیش آیا۔
الیکشن سے قبل راجیش کھنہ نے رات تین بجے نشے کی حالت میں ممبئی کے پولیس کمشنر مکند کوشل کو فون کر کے ان کے ماتحت ڈپٹی کمشنر پولیس کی شکایت کی جس نے راجیش کھنہ کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
کتاب میں اس افسر سے کی گئی گفتگو بھی شامل ہے جن سے راجیش کھنہ خفا ہو گئے تھے اور ان کی شکایت وزیرِ اعظم سے بھی کی تھی۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ راجیش کھنہ نے ان پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ بہار سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کی شتروگھن سنہا سے کوئی رشتے داری ہے اور ساتھ ہی وہ افسر کانگریس کے مخالف اور بی جے پی کے حامی ہیں۔
یاد رہے کہ شترو گھن سنہا کا تعلق بھی بھارت کی ریاست بہار سے ہے۔
ہر طرف سے ناکام ہونے کے بعد راجیش کھنہ نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے افسر کو پہلے دور دراز علاقے میں ٹرانسفر کرنے کی کوشش کی جس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر انہوں نے پولنگ کے روز اپنے سپورٹرز سے ان کے خلاف احتجاج بھی کرایا۔
چناؤ بھی ہارا اور دوست بھی: شترو گھن سنہا
اپنی خود نوشت ‘اینی تھنگ بٹ خاموش’ میں اداکار شتروگھن سنہا لکھتے ہیں کہ 1991 کے الیکشن کے ضمنی انتخابات کی وجہ سے ان کے اور راجیش کھنہ کے تعلقات میں ایسی خلیج پیدا ہوئی جو ہمیشہ برقرار رہی۔
ان کے خیال میں اگر وہ ضمنی انتخاب میں راجیش کھنہ کے خلاف حصہ نہ لیتے تو ان کی دوستی قائم رہتی۔
شتروگھن سنہا کے مطابق انہیں زندگی میں سب سے زیادہ افسوس نئی دہلی کی سیٹ پر راجیش کھنہ کے خلاف الیکشن لڑنے کا ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد وہ ایک ایسے دوست سے محروم ہو گئے جس سے ان کا روز کا ملنا جلنا تھا۔
شتروگھن سنہا کے بقول اگر بی جے پی کے رہنما ایل کے اڈوانی نے انہیں الیکشن میں کھڑے ہونے کے لیے نہ کہا ہوتا تو وہ کبھی اس ضمنی انتخاب سے اپنے سیاسی کریئر کی شروعات نہ کرتے۔
شتروگھن سنہا نے اپنی کتاب میں لکھا کہ راجیش کھنہ الیکشن میں کامیابی کے بعد بھی اس بات پر سخت ناراض تھے کہ ان کا ایک دوست فن کار ان کے مقابلے میں کھڑا ہوا تھا۔
اپنے دفاع میں شتروگھن سنہا کا کہنا تھا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ جس ضمنی انتخاب میں وہ کھڑے ہو رہے تھے، اسی نشست پر عام انتخابات میں راجیش کھنہ کو صرف 1589 ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔
شتروگھن سنہا نے حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی راجیش کھنہ کے خلاف الیکشن لڑنے پر پشیمانی کا اظہار کیا تھا۔
انٹرویو میں شتروگھن سنہا نے کہا کہ انہوں نے راجیش کھنہ کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ ان کے خلاف الیکشن نہیں لڑ رہے بلکہ سیاسی جماعت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ لیکن راجیش کھنہ اس سے مطمئن نہیں ہوئے۔