کراچی
نوے کی دہائی کی کامیاب بھارتی فلموں دل والے دلہنیا لے جائیں گے، ڈر ، بازی گر اور تال کے مکالمہ نگار جاوید صدیقی کا کہناہے کہ ان کا فلموں میں آنا حادثاتی ضرور تھا لیکن انہوں نے جب بھی لکھا، اپنے لیے ہی لکھا۔
معروف ادیب اور اسکرپٹ رائٹر جاوید صدیقی گزشتہ ہفتے ایک نجی تقریب میں شرکت کے لیے کراچی آئے تھے، انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے آرٹس کونسل میں بھی ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر ان کے فنی کریئر کے ساتھ ساتھ دیگر موضوع بھی زیرِ بحث آئے۔
‘بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں’ اور ‘ہار کر جیتنے والے کو بازیگر کہتے ہیں’ جیسے سپر ہٹ ڈائیلاگ کے خالق جاوید صدیقی نے اپنے کریئرکی کے دورا ن نوسے زائد فلموں کے مکالمے لکھے۔
ان کی آخری فلم ‘صدیاں’ تھیں جو سن 2010 میں ریلیز ہوئی جس میں اداکارہ ریکھا، ہیما مالنی اور اداکار رشی کپور کے ساتھ پاکستانی اداکار جاوید شیخ نے بھی کام کیا تھا۔
ساٹھ برس سے انڈین پیلپز تھیٹر ایسوسی ایشن سے وابستہ اسکرپٹ رائٹر جاوید صدیقی کے بقول "آج کل کی اور 80 اور 90 کی دہائی کی فلموں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔”
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈائیلاگ بذات خود کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک لنک کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ معلومات پہنچانے کی ضرورت ہے تو بالکل ڈائیلاگ سے کام لیا جاسکتا ہے لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں تصویر بول رہی ہو وہاں ڈائیلاگ لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جاویدصدیقی وہ واحد مصنف ہیں جنہوں نے ستیاجیت رے، یش چوپڑا، سبھاش گھائی اور ادیتیا چوپڑا کے ساتھ کام کیا اور ان کی زیادہ تر فلمیں کامیاب ہوئیں۔
ان کے بقول "مجھے اپنے کام پر فخر ہے اور کسی کے ساتھ کام نہ کرنے کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ اگرکسی کے ساتھ کام کرنا رہ گیا ہے تو یہ ان کی بدنصیبی ہے، میری نہیں۔”
جمعے کو آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں جاوید صدیقی کی فلموں کی ایک شو ریل پیش کی جب کہ ا ن کی زندگی پر مبنی ایک شارٹ فلم بھی دکھائی گئی۔
جاوید صدیقی نے تقریب میں شرکت پر حاضرین کا شکریہ اداکرتے ہوئے بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ ‘دل والے دلہنیا لے جائیں گے’ کے علاوہ بھی لوگ ان کے کام سے واقف ہیں کیوں کہ انہوں نے یہ کام ادب میں اپنی شناخت بنانے کے لیے ہی لکھا تھا۔
تقریب میں ضیاء محی الدین نے جہاں اپنے مخصوص انداز میں جاوید صدیقی کی کتاب ‘لنگرخانے’ سے ایک باب پڑھ کر سنایا وہیں زہرا نگاہ کے سوال اور جاوید صدیقی کے جوابات سے حاضرینِ محفل محظوظ ہوئے۔
‘لنگرخانے’ کے باب کی اس پڑھت کے ذریعے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ جاوید صدیقی کو فلم لائن میں آنے کا شوق کیسے ہوا۔انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ کیسے انہوں نے ورثے میں ملی زبان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صحافت کو اپنا کر کریئر کا آغاز کیا۔
ان کے بقول 70 کی دہائی میں اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے دوران جب سچا جرنلزم مشکل ہوگیا تھا تو وہ فلموں میں آگئے تھے۔
انہوں نے معروف ہدایت کار ستیاجیت رے کی ‘شطرنج کے کھلاڑی’ جیسی فلم سے کریئر کا آغاز کیا جو 30 برس سے زائد جاری رہا۔
آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والی تقریب میں جاوید صدیقی کے اہلِ خانہ سمیت نامور شخصیات نے بھی شرکت کی تھی۔