فلمی جائزے فلمیں

برطانوی ٹی وی سیریز ‘پوسٹ آفس اسکینڈل’ کا شکار ہونے والوں کی آواز کیسے بنی؟ 

Written by ceditor

وہ چور نہیں تھے لیکن ان سے چوروں کی طرح نمٹا گیا۔ اکیلے نہیں تھے لیکن ان پر ظاہر کیا گیا کہ وہ اکیلے ہیں۔ وہ علاقے کے معتبر لوگ تھے جن میں سے چار نے اسکینڈل کا حصہ بننے کے بعد خودکشی کر لی تھی جب کہ چند ایک کا ذہنی توازن بگڑ گیا تھا اور باقی بے عزتی کے ڈر سے چپ ہو گئے۔ — کراچی

یہ سب برطانیہ کے 736 سب پوسٹ ماسٹرز کے ساتھ ہوا تھا جن کی زندگی کی جمع پونجی سے نہ صرف انہیں یونائیٹڈ کنگڈم پوسٹ آفس نے محروم کیا بلکہ ان پر اس پیسے کی خرد برد کا الزام بھی عائد کیا جو ان کے پاس تھے ہی نہیں۔

سن 1999 سے لے کر 2015 کے درمیان برطانوی پوسٹ آفس نے 3500 کے قریب سب پوسٹ ماسٹرز پر کرپشن کا الزام لگا کر فارغ کردیا تھا جس میں سے 700 کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوئی تھی اور ان میں سے بعض کو مبینہ رقم واپس نہ کرنے کی وجہ سے جیل بھی جانا پڑا۔

یکم جنوری 2024 کو برطانوی ٹی وی چینل ‘آئی ٹی وی’ پر نشر ہونے والی چار اقساط کی منی سیریز ‘مسٹر بیٹس ورسز دی پوسٹ آفس’ کے بعد یہ اسکینڈل ایک بار پھر خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔

سیریز نے اس اسکینڈل کو پوری دنیا کے سامنے رکھا جس میں بتایا گیا ہے کہ غلطی ان سب پوسٹ ماسٹرز کے بجائے ایک سافٹ ویئر سے ہوئی تھی جسے برطانوی محکمۂ ڈاک نے جاپانی کمپنی سے خریدا تھا۔

برطانوی ڈاک خانے کے اس اسکینڈل کو جب ڈرامائی تشکیل ملی تو سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھا اور صارفین نے یو کے پوسٹ آفس کی سابقہ سربراہ پاؤلا ونیلز سے سرکاری اعزاز ‘کمانڈر آف دی برٹش ایمپائر’ واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔

احتجاج کے بعد نہ صرف پاؤلا ونیلز نے یہ اعزاز واپس کیا بلکہ برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے بھی اس اسکینڈل سے متاثر ہونے والوں کی سزائیں معاف کرنے کا اعلان کیا۔

برطانوی پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران انہوں نے وعدہ کیا کہ ان کی حکومت اس اسکینڈل کے متاثرین کو فی کس چھ لاکھ پاؤنڈز آفر کرے گی جب کہ جن افراد کو کچھ رقم مل چکی ہے انہیں 75 ہزار پاؤنڈز دیے جائیں گے۔

برطانیہ کا پوسٹ آفس اسکینڈل کیا ہے؟

یہ کہانی 90 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوئی جب برطانوی حکومت نے پوسٹ آفس ڈپارٹمنٹ کو ایک سینٹرل کمپیوٹر سسٹم سے لنک کرنے کا فیصلہ کیا اور جاپانی کمپنی ‘فوجٹسو’ سے ان کا آئی ٹی سسٹم ‘ہورائزن’خریدا۔ اس سسٹم نے جلد ہی کاغذ، قلم اور اکاؤنٹ بکس کی جگہ لے لی۔

لیکن جب ‘ہورائزن’ سسٹم استعمال کرنے والوں نے محکمے کے افسران کی توجہ اس کی مبینہ غلطیوں کی جانب دلوائی تو انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا گیا کہ ان کے علاوہ سب کے پاس یہ آئی ٹی سسٹم ٹھیک چل رہا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جہاں سے مسائل میں اضافہ شروع ہوا۔

وہ مسائل کیا تھے؟ اس پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اُس وقت برطانیہ میں پوسٹ آفس کے محکمے کی اہمیت کیا تھی؟

نوے کی دہائی میں برطانیہ میں پوسٹ آفس کو کمیونی کیشن کا سب سے محفوظ اور مقبول ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔

اس نظام کی مثالیں دنیا بھر میں دی جاتی تھیں جس کا صرف ایک فی صد کام مرکزی پوسٹ آفس کرتا تھا جب کہ 99 فی صد کام پرائیوٹ افراد کرتے تھے جنہیں ‘سب پوسٹ ماسٹرز’ کہا جاتا ہے۔

ان سب پوسٹ ماسٹرز کے پاس مرکزی پوسٹ آفس کی ایک برانچ یا فرانچائز ہوتی ہے جسے وہ مینج کرتے ہیں۔ ان کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مارچ 2022 میں برطانیہ بھر میں 9500 ہزار سے زائد ایسی برانچز تھیں جو سب پوسٹ ماسٹرز کی زیرِ نگرانی تھیں جب کہ مرکزی پوسٹ آفس کی اپنی برانچوں کی تعداد 117 تھی۔

نوے کی دہائی میں جب انٹرنیٹ عام نہیں ہوا تھا، پوسٹ آفس کا یہ نیٹ ورک اور بھی فعال تھا کیوں کہ مقامی پوسٹ آفس کو ہی ہر قسم کی خط و کتابت اور لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

پوست آفس کے ذریعے ہی ایک شہر سے دوسرے شہر رقم بھیجنے کے لیے منی آرڈر، پے آرڈر یا ڈیمانڈ ڈرافٹ بھیجا جاتا تھا۔

صارفین خطوں اور پارسلز کے لیے تو سب پوسٹ ماسٹر کی خدمات حاصل کرتے تھے لیکن بلوں کی ادائیگی، انشورنس اور حتیٰ کہ کریڈٹ کارڈز کی ادائیگی کے لیے بھی مقامی پوسٹ آفس کا رخ کیا جاتا تھا۔

سن 1969 میں رائج ہونے والے اس نظام کی وجہ سے نہ صرف محکمہ ڈاک کو خسارے سے بچایا گیا بلکہ مقامی پوسٹ آفسز کو ہی مرکزی پوسٹ آفس کی برانچ تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن یہ 1999 میں آے والی ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد سب کچھ بدل گیا۔

سن 1999 میں جاپانی کمپنی ‘فوجٹسو’ سے معاہدے کے بعد ‘ہورائزن’ کی آمد کا مقصد پیپر ٹریل کو کم کرنا تھا۔ اس نے پوسٹ آفس کی کارکردگی کو تو بہتر بنایا لیکن سب پوسٹ ماسٹرز کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

ان سب پوسٹ ماسٹرز میں سے زیادہ تر افراد بڑی عمر کے افراد تھے۔ آغاز میں تو انہوں نے ان مسائل کا سامنا کرنے کی کوشش کی کیوں کہ وہ پوسٹ آفس کے ساتھ ساتھ کوئی اور کاروبار بھی کرتے تھے۔

لیکن جب اکاؤنٹس میں مالی بے ضابطگیوں کے معاملے پر سب پوسٹ ماسٹرز نے مرکزی پوسٹ آفس سے رجوع کیا تو مرکزی پوسٹ آفس نے ان کے خدشات دور کرنے کے بجائے انہیں قصور وار قرار دے کر ان کی فرانچائز بند کرا دیں اور انہیں معطل بھی کر دیا۔

اس سب معاملے میں ایلن بیٹس نامی شخص نے ہمت نہیں ہاری اور شروع سے لے کر آخر تک وہ پوسٹ آفس انتظامیہ کے خلاف ڈتا رہا۔

اس نے یو کے پوسٹ آفس اور ہورائزن سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا تاکہ اسے اور اس جیسے کئی افراد کو انصاف مل سکے۔

رواں ماہ کے آغاز میں نشر ہونے والی منی سیریز میں اسی ایلن بیٹس کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے جس کی گونج اب برطانوی حکومت کے ایوانوں تک پہنچ چکی ہے۔

ٹی وی سیریز میں ایسا کیا ہے جس نے حکام بالا کو بھی ہلا دیا؟

ٹی وی سیریز ‘مسٹر بیٹس ورسز دی پوسٹ آفس’ میں اداکار ٹوبی جونز نے سب پوسٹ ماسٹر ایلن بیٹس کا مرکزی کردار نبھایا ہے جو سب پوسٹ ماسٹرز کی آواز بن کر سامنے آتا ہے۔

چار اقساط پر مشتمل سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایلن بیٹس اکیلے پوسٹ آفس انتظامیہ کے خلاف ڈٹ جاتا ہے اور کس طرح وہ نامناسب حالات کے باوجود اپنے اور اپنے ساتھیوں کو بے گناہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

اس سیریز میں یہ سب کچھ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سب پوسٹ ماسٹرز پوسٹ آفس کے خلاف جنگ میں پہلے گرے اور پھر انہیں یقین دلایا گیا کہ غلطی آئی ٹی سسٹم سے نہیں بلکہ ان سے سرزد ہوئی ہے اور کس طرح ان کی معصومیت سے فائدہ اٹھایا گیا۔
سیریز کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں وہی سب کچھ دکھایا گیا ہے جس سے متاثرین گزرے۔ اگر 1999 سے لے کر 2021 تک ہونے والے ان معاملات کو اچھی طرح سے نہ پیش کیا جاتا تو شاید ہی یہ سیریز کامیاب ہوتی اور نہ ہی اس کے بازگشت حکومت تک پہنچتی۔
پوسٹ آفس اسکینڈل کا اصل ذمے دار کون؟
پوسٹ آفس اسکینڈل کے ذمے داروں کا تعین تو قانون ہی کرے گا لیکن جس طرح ٹی وی سیریز نے اس معاملے کی عکاسی کی ہے اس کے بعد پوسٹ آفس انتظامیہ اور آئی ٹی سسٹم بنانے والی کمپنی ‘فوجٹسو’ اس کے ذمے دار نظر آتے ہیں۔
آئندہ ہفتے ‘فوجٹسو’ کے اعلیٰ افسران برطانوی حکام کے سامنے پیش ہو کر اپنا مؤقف پیش کریں گے۔ چوں کہ سسٹم انہوں نے ڈیزائن کیا تھا اس لیے اس کی ذمے داری بھی ان ہی کی بنتی ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کئی سب پوسٹ ماسٹرز نے آغاز سے ہی ‘ہورائزن’ کے خلاف شکایات ریکارڈ کرائی تھیں لیکن ان کی شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے انہیں پوسٹ آفس افسران نے یقین دلایا کہ ان کے علاوہ کسی بھی فرد کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا۔
جس طرح منی سیریز میں دکھایا گیا کہ معاملے کو نیشنل لیول پر اس وقت اہمیت ملی جب 2009 میں متاثرین کی کہانی ‘کمپیوٹر ویکلی’ نامی جریدے نے عوام تک پہنچائی اور انہیں یقین دلایا کہ وہ اس اسکینڈل کا اکیلے شکار نہیں۔
میڈیا میں بات آنے کے بعد پوسٹ آفس انتظامیہ نے پہلی بار اپنا مؤقف پیش کیا جس کے نتیجے میں متعدد سب پوسٹ ماسٹرز یکجا ہوئے اور ایلن بیٹس کی صدارت میں ‘جسٹس فار سب پوسٹ ماسٹرز الائنس’ تشکیل دیا گیا۔
اسی گروپ کی کوششوں کی وجہ سے 2017 میں عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا جسے نہ صرف برطانیہ میں بھرپور میڈیا کوریج ملی بلکہ اس کی وجہ سے پوسٹ آفس انتظامیہ کی حقیقت بھی سامنے آ گئی۔
اس اسکینڈل سے متاثر ہونے والوں کے ساتھ ان کے حلقے کے سیاست دان بھی کھڑے رہے جن کے دباؤ کی وجہ سے یو کے پوسٹ آفس کی سربراہ پاؤلا ونیلز کو ایک حکومتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا جہاں وہ آئی ٹی سسٹم کا دفاع کرنے سے قاصر رہیں۔
سات سو چھتیس سب پوسٹ ماسٹرز کو مجرم قرار دینے اور ساڑھے تین ہزار افراد کی زندگیاں تباہ کرنے والے اس آئی ٹی سسٹم کے خلاف 2019 میں عدالت نے فیصلہ دیا۔ لیکن تب تک کئی متاثرین ہمت ہارچکے تھے اور چار اپنی بے گناہی ثابت نہ کرنے کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہو گئے تھے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اب تک صرف 93 متاثرین کو تو بے گناہ قرار دیا جاچکا ہے لیکن یونائیٹڈ کنگڈم پوسٹ آفس کے ایک بھی افسر کو نااہلی پر سزا بھی نہیں ہوئی۔
سیریز کے نشر ہونے تک برطانوی حکومت 12 کروڑ 47 لاکھ پاؤنڈزکی رقم متاثرین کو بطور معاوضہ ادا کرچکی ہے جب کہ ہے امکان ہے کہ باقی کی سزائیں بھی جلد ہی معاف کر دی جائیں گی۔

عمیر علوی – امریکا کی آواز

About the author

ceditor