اسپورٹس

باپ سے کیا وہ وعدہ جسے پورا کرتے کرتے لیجنڈری فٹ بالر پیلے نے تین ورلڈ کپ جیت لیے

Written by Omair Alavi

کراچی

برازیل کے لیجنڈ فٹ بالر پیلےکا شمار صرف اس وجہ سے دنیا کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں نہیں ہوتا کیوں کہ وہ ایک بہترین کھلاڑی تھے، بلکہ اس لیے کیوں کہ وہ تین ورلڈ کپ جیتنے والےدنیا کے پہلے اور اب تک واحد کھلاڑی ہیں۔

نہ تو ان سے پہلے کسی کھلاڑی نے ایسا کیا، نہ ہی ان کے بعد کوئی اب تک ایسا کرسکا ہے، لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پیلے نے ورلڈ کپ اپنے ملک کے لیے نہیں، بلکہ اپنے باپ کے لیے جیتا، جنہیں 1950 کے ورلڈ کپ فائنل میں روتا دیکھ کر انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹرافی برازیل لے کرآئیں گے۔

اپنی سوانح عمری’پیلے، دی آٹو بائیوگرافی‘ میں لکھتے ہوئے عظیم کھلاڑی نے بتایا کہ 1950 میں جب وہ نو سال کےتھے، تو مجموعی طور پر چوتھے فٹ بال ورلڈ کپ اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہونے والے پہلے فٹ بال ورلڈ کپ کا فائنل برازیل میں کھیلا جارہا تھا۔

ٹی وی کی آمد سے پہلے کے زمانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ان کے والد ڈونڈنہو نے 15 کے قریب اپنے دوستوں کو فائنل ریڈیو پر سننے کے لیے گھر مدعو کیا، اور جب تک برازیل کی ٹیم میچ میں حاوی رہی ، ان کے گھر میں شور و غل عروج پرتھا۔

چونکہ برازیل نے فائنل میں جگہ بنانے کے لیے سوئیڈن کو ایک کے مقابلے میں سات، اور اسپین کو ایک کے مقابلے میں چھ گول سے شکست دی تھی، اس لیے برازیل کے لوگوں کو لگ رہا تھا جیسے اس بار ورلڈ کپ وہی جیتیں گے۔

خود پیلے کو بھی ایسے ہی لگ رہا تھا کیوں کہ اس ایونٹ میں سوائے ایک میچ کے جو برازیل نے سوئٹزلینڈ سے برابر کھیلا تھا، باقی تمام میچ میزبان ٹیم نے جیتے تھے۔

میچ کے آغاز میں برازیل کی جانب سے پہلے گول کے ساتھ ہی ان کے گھرمیں جشن شروع ہوگیا، جس کی شدت یوراگوئے کے پہلے گول کے بعد کم ہوئی، اور میچ ختم ہونے سے دس منٹ قبل مخالف ٹیم کے فیصلہ کن گول کے بعد ختم ہوگئی۔

پیلے لکھتے ہیں کہ وہ پہلا دن تھا جب انہوں نے اپنےوالد کو، جو خود بھی فٹ بال کھیلتے تھے، پہلی مرتبہ آنسوؤں سے روتے دیکھا، صرف ان کے والد ہی نہیں، اس دن ان کے دوست، بلکہ سارا برازیل افسردہ تھا۔

پیلے کے بقول جب انہوں نے اپنے والد سے میچ کا رزلٹ پوچھا تو انہوں نے ’برازیل ہارگیا، برازیل ہارگیا‘ اس طرح کہا جسے سوچ کر ان کے رونگٹے بعد میں بھی کھڑے ہوجاتے تھے۔ میچ کے بعد اس گھر میں جہاں تھوڑی دیر پہلے شور مچ رہا تھا، صرف خاموشی ہی خاموشی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر برازیل کی ٹیم کسی اور ٹیم سے ہارتی تو شاید اتنا افسوس نہ ہوتا جتنا یوراگوائے یا ارجنٹائن سے ہار کا ہوا، کیونکہ یہ دونوں ٹیمیں ان کی روایتی حریف تھیں، اسی لیے اس دن سارا شہر ‘گوسٹ ٹاؤن’ بنا ہوا تھا، یعنی جیسے وہاں بھوتوں کا راج ہو۔

پیلے کا مزید کہنا تھا کہ یہی وہ دن تھا جب انہوں نے اپنے والد سے ایک ایسا وعدہ کیا جسے پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنی زندگی وقف کردی۔ پیلے نے اپنے روتے ہوئے والد کو چپ کرانے کے لیے کہا کہ’’ ایک دن میں آپ کے لیے ورلڈ کپ جیتوں گا‘۔

پیلے کے مطابق جب کچھ دن بعد ان کے والد کی طبیعت بہتر ہوئی تو انہوں نے پیلے کو بتایا کہ فائنل میں شکست برازیل کے ایک اور شہر ماراکانا میں کئی لوگوں سے برداشت نہیں ہوئی اور وہ صدمے کے باعث انتقال کرگئے۔

اس واقعے کے ٹھیک آٹھ سال بعد 17 سالہ پیلے نے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ہیٹ ٹرک، اور فائنل میں دو گول اسکور کرکے نہ صرف اپنے والد سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا، بلکہ 1962 اور 1970 میں مزید دو بار یہ کارنامہ انجام دے کرریکارڈ بکس میں اپنا نام درج کرلیا۔

پیلے نے یووینٹس کی جانب سے ایک ملین ڈالر زکی پیشکش کیوں ٹھکرائی؟

اپنے کریئر کے عروج پر پیلے کو دنیا بھر کے فٹ بال کلبوں نے اپنی ٹیم کا حصہ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے برازیلین صدر نے انہیں ’قومی اثاثہ‘ قرار دے کر ان کے برازیل سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی تھی، جس کی وجہ سے وہ کبھی یورپ کی کسی کلب کی نمائندگی نہ کرسکے۔

تاہم اپنی سوانح عمری میں برازیل سے باہر نہ جانے کی بات کا ذکر کرتے ہوئے پیلے کا کہنا تھا کہ وہ جس لڑکی روزمیری سے شادی کرنا چاہتے تھے، اس کی عمر کم ہونے کی وجہ سے وہ برازیل چھوڑنے کے حق میں نہیں تھے۔

انہوں نے کتاب میں مزید لکھا کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب برازیل کی کانگریس کی جانب سے انہیں ’ قومی اثاثہ‘ قرار دیے جانے والی خبر گردش کررہی تھی، لیکن وہ اس فیصلے سے آگاہ نہیں تھے۔

ساتھ ہی ساتھ انہوں نے بتایا کہ یورپی کلب انٹرمیلان کی 40 ملین برازیلین کروزیروز اور یووینٹس کی ایک ملین امریکی ڈالرز کی پیشکش کو ان کے کلب سینٹوس نے تو ٹھکرایا، وہ خود بھی اس ٹرانسفر کے حق میں نہیں تھے کیوں کہ انہیں روزمیری کے والد کو منانے کے لیے برازیل میں ہی رہنا تھا۔

جب پیلے نے اداکار مائیکل کین اور سلویسٹر اسٹیلون کے سامنے بائیسیکل کک کا جادو جگایا!

پیلے کو فٹ بال کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تو کہا جاتا ہے لیکن انہوں نے فلمی دنیا میں بھی قدم رکھا، اور اس میں بھی اپنی ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہ بات ہے 1981 کی جب ہدایت کار جان ہیوسٹن کی فلم ’اسکیپ ٹو وکٹری‘ میں ہالی وڈ کی ہیوی ویٹ اداکاروں مائیکل کین اور سلویسٹر اسٹیولون کے ساتھ فلم میں پیلے کو کاسٹ کیا گیا۔

اپنی کتاب میں پیلے لکھتے ہیں کہ نہ صرف وہ اس فلم کا بطور اداکار حصہ تھے بلکہ اس کے تکنیکی مشیر بھی تھے، اور ہدایت کار جان ہیوسٹن نے انہیں اس وقت جذبات قابو میں رکھنے کا سبق دیا جب وہ اسی جوش و ولولے کے ساتھ اداکاری کرنے کی کوشش کرتے تھے جیسے کہ اصل میچ کھیل رہے ہوں۔

فلم کی کہانی دوسری جنگِ عظیم کے دوران کھیلے جانے والے ایک ایسے فرضی فٹ بال میچ کے گرد گھومتی تھی جس میں جرمن فوج اور ان کی قید میں موجود دشمن فوجیوں پر مبنی ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔

اسکرین پر الائیڈ فورسز کی ٹیم کی قیادت اداکار مائیکل کین کرتے ہیں جب کہ پیلے کے علاوہ انگلش ورلڈ کپ ونر بوبی مور، ارجنٹائن کے ورلڈ کپ ونر اوزی آردیلے اور اپسوئچ ٹاؤن کے کئی کھلاڑیوں نے قیدیوں کا کردار ادا کیا۔

پیلے کے بقول اس فلم میں ان کا کردار ایک جرمن کھلاڑی کی وجہ سے زخمی ہوکر گراؤنڈ سے باہر چلا جاتا ہے لیکن بعد میں لنگڑاتے ہوئے نہ صرف واپس آتا ہے بلکہ اپنی ٹریڈ مارک بائیسیکل کک سے گول کرکے اسکور برابر کردیتا ہے۔

اس فلم کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ اداکار سلویسٹر اسٹیلون فلم کے دوران کسی دوسرے شخص کو سیٹ پر موجود کرسی پر بیٹھنے نہیں دیتے تھے، اور گول کیپر کا کردار ادا کرنے کے باوجود فلم میں ہونے والا فیصلہ کن گول کرنے کے خواہش مند تھے، جسے بعد میں گول کیپر کی سیو میں تبدیل کردیا گیا۔

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔