- انگلینڈ نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کو 23 رنز سے شکست دے دی تھی۔
- پاکستان کے بیٹنگ آرڈر اور بالنگ آپشنز پر ماہرین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔
- بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ شاداب خان کی جگہ اب ابرار احمد کو موقع ملنا چاہیے۔
- کچھ ماہرین اعظم خان کی جگہ عثمان خان کو موقع دینے پر بھی زور دے رہے ہیں۔
- بابر اعظم کی کپتانی بھی ایک بار پھر موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔
کراچی — پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے ہونے والی سیریز کو ماہرین دونوں ٹیموں کے لیے اہم قرار دے رہے ہیں کیوں کہ یہ سیریز گزشتہ ایونٹ کی فاتح اور رنرز اپ کو میگا ایونٹ سے قبل پریکٹس کا موقع فراہم کرے گی۔
ماہرین کے مطابق سیریز کے دوسرے میچ میں شکست کے بعد گرین شرٹس کی کچھ ایسی غلطیاں سامنے آئی ہیں جنہیں اگر درست نہ کیا گیا تو میگا ایونٹ میں ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان غلطیوں میں آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں پر کپتان بابر اعظم کا انحصار کرنا، بیٹنگ آرڈر کی غیر مستقل مزاجی، کم بالرز کے ساتھ میچ میں جانا قابلِ ذکر ہیں۔ محمد رضوان کی موجودگی میں اعظم خان سے وکٹ کیپنگ کرانے کا جواز بھی ماہرین کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔
سیریز کا تیسرا میچ منگل کی رات پاکستانی وقت کے مطابق ساڑھے دس بجے کارڈف میں کھیلا جائے گا جس میں کامیابی ہی پاکستان کو سیریز میں واپس لا سکتی ہے۔ ناکامی کی صورت میں انگلش ٹیم سیریز اپنے نام کر لے گی۔
شاداب خان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان
انترنیشنل کرکٹ کونسل کی رینکنگ کے مطابق شاداب خان اس وقت دنیا کے گیارہویں بہترین آل راؤنڈر ہیں۔ 2017 میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی میں ان کی کارکردگی شائقین کو آج بھی یاد ہے۔
لیکن آل راؤنڈر بننے سے پہلے وہ ایک بالر ہیں جن کی بیٹنگ کو بونس سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین کے خیال میں جب سے انہوں نے بیٹنگ پر توجہ دی ہے ان کی بالنگ متاثر ہوئی ہے۔
ایسا ہی کچھ ہوا انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں ہوا جس میں شاداب خان نے چار اوورز میں 55 رنز دیے جس کی وجہ سے انگلش ٹیم 183 رنز بنانے میں کامیاب ہوئی۔
اس کارکردگی کے بعد ان کا شمار مسلسل دو میچز میں 50 یا اس سے زیادہ رنز دینے والے بالرز میں ہونے لگا ہے۔ آئرلینڈ کے خلاف اسی ماہ ہونے والے ایک اور میچ میں انہوں نے چار اوورز میں 54 رنز دیے تھے۔
دونوں میچوں میں پاکستان ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے اسکواڈ میں مسٹری اسپنر ابرار احمد موجود ہیں جنہیں اگر موقع دیا جائے تو اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔
ان دونوں میچز میں شاداب خان بالنگ کی طرح بیٹنگ میں بھی ناکام ہوئے۔ ایک میچ میں انہوں نے صفر اور دوسرے میں صرف تین رنز بنائے۔ سابق کپتان شاہد آفریدی کے خیال میں بالنگ کوچ کو شاداب خان کی بالنگ پر کام کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا صارفین نے بھی شاداب خان پر کپتان بابر اعظم کے اعتماد پر دونوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور ابرار احمد کی فائنل الیون میں شمولیت کا مطالبہ کیا ہے۔
اعظم خان کو بطور وکٹ کیپر کھلانا ورلڈ کپ میں مہنگا پڑ سکتا ہے
آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف میچوں میں پاکستان نے اعظم خان کو بطور وکٹ کیپر بلے باز موقع دیا۔ بیٹنگ میں تو انہوں نے کچھ رنز بنا کر اپنی اہمیت واضح کی۔ لیکن وکٹ کیپنگ کے شعبے میں مایوس کیا۔
انگلینڈ کے خلاف دوسرے میچ میں بلے باز جونی بیئراسٹو کی اننگز کے آغاز میں بالر حارث رؤف نے ایل بی ڈبلیو کی اپیل کی جس کی اعظم خان نے تائید کی اور کپتان کو ریفرل لینے پر مجبور کیا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس وقت اعظم خان نے بالر کی اپیل پر آواز اٹھائی۔ اس وقت وہ خود لیگ سائیڈ پر کھڑے تھے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گیند لیگ اسٹمپ کو مس کر رہی تھی۔
وکٹوں کے عقب میں اعظم خان کی لاپروائی کی وجہ سے نہ صرف ایک اہم ریفرل ضائع ہوا بلکہ مخالف ٹیم کو کئی اضافی رنز اسکور کرنے کے مواقع بھی ملے اگر ان کی کارکردگی میں بہتری نہ آئی تو ورلڈ کپ میں گرین شرٹس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر اعظم خان کی جگہ محمد رضوان یا عثمان خان سے کیپنگ کرائی جائے تو بہتر ہو گا۔ گو کہ عثمان خان اور اعظم خان کی کیپنگ میں زیادہ فرق نہیں۔ لیکن اعظم خان کے برعکس وہ گراؤنڈ میں کسی بھی جگہ فیلڈنگ کر سکتے ہیں۔
بیٹنگ آرڈر کی غیر مستقل مزاجی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیسے؟
پاکستان کرکٹ ٹیم کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت بیٹنگ آرڈر کی غیر مستقل مزاجی ہے، کبھی شاداب خان کو اوپر بیٹنگ کے لیے بھیج دیا جاتا ہے تو کبھی مستند بلے بازوں پر اعظم خان کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان فارم کھلاڑیوں کو اپنی اننگز میں سیٹ ہونے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔
انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ عماد وسیم اور افتخار احمد کی 40 رنز کی اہم پارٹنر شپ پاکستان کو میچ میں واپس تو لائی۔ لیکن شاداب خان کو نمبر پانچ اور اعظم خان کو نمبر چھ پر بھیجنے کی وجہ سے ان کے بعد نچلے نمبروں کے بلے باز ہی موجود تھے۔
اسی لیے 16 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 140 رنز بنانے والی ٹیم آخری اوور میں 160 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ نہ شاداب خان اور اعظم خان چل پائے نہ ہی افتخار احمد اور عماد وسیم لمبی اننگز کھیل سکے۔
ماضی میں کئی کپتانوں نے پنچ ہٹرز کو بھیج کر میچ کا نقشہ بدلا لیکن ایسا صرف اس وقت ہوتا تھا جب ٹیم میں جارح مزاج بلے باز نہیں ہوتے تھے۔ اگر عماد وسیم اور افتخار احمد کو تھوڑا اوپر بھیجا جاتا تو میچ کا نتیجہ مختلف بھی ہوسکتا تھا۔
کپتان بابر اعظم کو قیادت اور ٹیم سلیکشن بہتر کرنا ہوں گی
اور آخر میں بات پاکستان کرکٹ ٹیم کے قائد بابر اعظم کی جنہیں بورڈ نے ایک سیریز کے بعد دوبارہ کپتان تو بنادیا گیا، لیکن غلطیاں وہ وہی دہرا رہے ہیں جن کی وجہ سے گزشتہ سال پاکستان ٹیم ایشیا کپ اور ورلڈ کپ دونوں کے ناک آؤٹ مرحلے سے باہر ہو گئی تھی۔
فائنل الیون میں میڈیم پیسر صائم ایوب اور آف اسپنر افتخار احمد کی موجودگی میں وہ بدستور آؤٹ آف فارم شاداب خان سے پورے چار اوورز کروا رہے ہیں جس سے ٹیم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔