فلمیں

الیکشن سے قبل ہندوتوا کا نظریہ پیش کرنے والے ساورکر پر بننے والی فلم ریلیز؛ کیا نئی بحث کا آغاز ہو گا؟

Written by ceditor

بھارت میں لوک سبھا کے الیکشن سے چند ہفتے قبل ہی ہندو قوم پرستی کے اہم ترین مفکروں میں شامل دامودر داس ساورکر کی زندگی پر بننے والی فلم ریلیز ہوئی ہے۔

ساورکر بیسویں صدی میں ہندوستان کے ان سیاسی رہنماؤں اور مصنفین میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے ہندو قوم پرستی یا ’ہندوتو‘ کا نظریہ پیش کیا جس سے متاثر ہوکر دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی بنیاد پڑی۔

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) بھی ساورکر کے سیاسی آدرش تسلیم کرتے ہیں۔

جمعے کو ریلیز ہونے والی ونایک دامودر ساورکر کی زندگی پر مبنی فلم ’سوتنترا ویر ساورکر‘ یعنی ’آزادی کا ہیرو ساورکر‘ میں اداکار رندیپ ہوڈا نے مرکزی کردار ادا کیا ہے اور وہ اس فلم کے ہدایت کار بھی ہیں۔

فلم کی ریلیز سے قبل ہی اس بات کا بہت چرچا تھا کہ مرکزی کردار سے قریب تر نظر آنے کے لیے رندیپ ہوڈا نے کئی کلو وزن کم کیا ہے۔

اس کے علاوہ فلم کے ٹیزز میں ڈائیلاگ شامل تھا کہ ’مجھے گاندھی سے نہیں اہنسا (عدم تشدد) سے نفرت ہے۔‘ اس سے واضح ہوگیا تھا کہ یہ فلم بھارت میں گاندھی بمقابلہ ساورکر کی بحث کا حصہ ہے۔

اس بحث میں موہن داس کرم چند گاندھی کے عدم تشدد کے فسلفے اور سیکیولر نظریات کے مقابلے میں ہندو قوم پرستی کے نظرئیے کو پیش کیا جاتا ہے۔

ساورکر کون؟

ساورکر کو نہ صرف گاندھی کےا نظریاتی مقابل کے طور پر دیکھا جاتا ہے بلکہ وہ گاندھی کے قتل کے ملزمان میں بھی شامل تھے۔

گاندھی کو آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے ہندو قوم پرست ناتھو رام گوڈسے نے اپنے ایک اور ساتھی کے ساتھ مل کر 30 جنوری 1948 کو قتل کردیا تھا۔

گوڈسے اور ان کے ساتھی گاندھی کو تقسیم کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور فرقہ وارانہ فسادات میں ہندوؤں کی ہلاکتوں کا ذمے دار سمجھتے تھے۔ اسی کو بنیاد بنا کر انہوں نے گاندھی کو نشانہ بنایا تھا۔

گاندھی کے قتل میں قوم پرست ہندو تنظیم ہندو مہا سبھا کے ملوث ہونے کا الزام بھی عائد ہوا تھا۔ہندو مہا سبھا پر ونائیک دامودرداس ساورکر کے افکار کا گہر اثر تھا اور وہ اس تنظیم کی قیادت میں بھی شامل رہے تھے۔ ساورکر گاندھی کے ہندو مسلم اتحاد سے متعلق خیالات اور سیکیولرزم کے مخالف تھے۔

ساورکر پر الزام تھا کہ وہ ناتھو رام گوڈسے کو گاندھی کے قتل پر اکسانے میں ملوث تھے تاہم عدالت نے بعدازاں انہیں اس مقدمے سے بری کردیا تھا۔

سن 2014 میں بی جے پی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اس کے کئی رہنما گاندھی کے قتل میں سزا پانے والے ناتھو رام گوڈسے کو قومی ہیرو قرار دیتے ہوئیے ان کی پذیرائی کے بیانات دے چکے ہیں۔ اس پر کانگریس سمیت بھارت کی اپوزیشن جماعتیں، سیکیولر نظریات کے حامی اسکالرز اور سماجی کارکنان کڑی تنقید کرتے آئے ہیں۔

تاہم وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بی جے پی نے کبھی واضح طور پر ناتھو رام گوڈسے کی مذمت نہیں کی ہے۔ لیکن مودی اور بی جے پی گوڈسے کے استاد اور ہندو قوم پرست مفکر ونایک دامودر ساورکر کو آزادی کا رہنما تسلیم کرتی ہے۔

سن 2003 میں بی جے پی کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھارتی پارلیمنٹ کے مرکزی ہال میں ساورکر کی تصویر آویزاں کی تھی۔ گزشتہ برس بھارتی پارلیمنٹ کے افتتاح کے لیے 28 مئی کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا تھا جو ساورکر کی 140 ویں سالگرہ کا دن بھی تھا۔

’انڈسٹری کا کلچر بدل رہا ہے‘

’سوتنترا ویر ساورکر‘ نہ تو وزیر اعظم مودی کے ایجنڈے کو فروغ دینے والی پہلی فلم ہے اور نہ ہی آخری۔ مبصرین کی رائے میں بالی وڈ میں الیکشن سے پہلے اس ایجنڈے کا پرچار کرنے والی یا ان کے ناقدین کو منفی انداز میں پیش کرنے والی فلموں کی تعداد میں اضافہ تشویش ناک ہے۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاپولر سنیما کو ہندوتوا کے پرچار کے لیے استعمال کرنا اس لیے بھی درست نہیں کیوں کہ اس سے بھارت میں مذہبی کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔

بالی وڈ اسکرین رائٹر اور فلمی نقاد راجا سین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ماضی میں فلموں کے ذریعے مذہبی ہم آہنگی کو پروموٹ کیا جاتا تھا اور ایسی فلمیں بنائی جاتی تھیں جو تمام مذاہب کی نمائندگی کرتی تھی۔ تاہم اب وقت بدل رہا ہے، اور ایسی فلموں کو تسلیم کیا جارہا ہے جو ان خیالات کی نفی کرتی ہیں۔

سو سال قبل وجود میں آنے والی بھارتی فلم انڈسٹری بالی وڈ کا شمار ایک صدی تک ایسی فلم انڈسٹری میں ہوتا تھا جہاں فلموں کے ذریعے مختلف مذایب، ذات برادری اور سیاسی وابستگی رکھنے والے افراد کو بلا تفریق تفریح مہیا کی جاتی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس انڈسٹری کا یہ کلچر بھی خطرات سے دو چار ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورمیں ماضی کے ہندو بادشاہوں کی بہادری پر بننے والی فلموں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ بھارتی فوج کے کارناموں کے گرد گھومنے والی فلموں نے باکس آفس پر خوب کامیابی سمیٹی۔

اس کے ساتھ ساتھ ایسی فلمیں بھی پیش کی گئیں جن میں ہندوتوا کا پرچار کرنے والے بھارتی سیاستدانوں کو بطور ہیرو دکھایا گیا۔ ان فلموں میں پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمانوں کو بطور ولن دکھایا گیا پخواہ وہ مغل بادشاہ ہوں، دانشور ہوں یا پھر سماجی کارکن۔

ساورکر کی بائیوپک بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ساورکر نے بھارت میں سیکولرزم کی جگہ ہندوتوا کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی۔

اسی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے مزید دو فلمیں اگلے چند دنوں میں ریلیز ہوں گی جن میں سے ایک کی کہانی سن 2002 میں پیش آنے والے گجرات فسادات کے گرد گھومتی ہے تو دوسری میں نئی دلی کی ایک مشہور یونی ورسٹی جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی(جے این یو) میں ہونے والے احتجاج کو ملک دشمن ایجنڈے کے طور پر دکھایا جائے گا۔

سن 2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں جس وقت ہندو مسلم فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے اور فسادات کو روکنے کے لیے بر وقت اقدامات نہ کرنے سے متلق ان کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔

ماضی میں اسی بیانیے پر بننے والی کئی فلموں نے باکس آفس پر کامیابی حاصل کی، جس میں سے ایک آرٹیکل 370 کی اس وقت بھی سنیما میں نمائش جاری ہے۔ اس فلم کی کہانی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو ریاست کے حق سے محروم کرنے والے حکومتی فیصلے کے گرد گھومتی ہے جس پر ناقدین نے خوب تنقید کی ہے۔

گزشتہ سال کی نویں سب سے کامیاب فلم دی کیرالہ اسٹوری میں دکھایا گیا کہ کس طرح کرسچن اور ہندو لڑکیوں کو اسلامک اسٹیٹ تنظیم میں شامل کیا جاتا ہے۔

اس فلم پر بھارت میں ان دو ریاستوں میں پابندی لگادی گئی جہاں اپوزیشن کی حکومت تھی ، ان کے مطابق اس فلم سے مذہبی انتشار پھیلنے کا خدشہ تھا جس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا تھا۔

دوسری جانب اس فلم کو ان ریاستوں میں ٹیکس چھوٹ دی گئی جہاں بی جے پی حکومت میں تھی۔ ایک الیکشن ریلی میں تو نریندر مودی نےبھی اس فلم کی تشہیر کی۔

فلم کے ہدایت کار سودیپٹو سین کا کہنا تھا کہ ’دی کیرالہ اسٹوری‘ مسلمانوں کے خلاف نہیں تھی، اس میں مذہب پرستی اور دہشت گردی کے گتھ جوڑ کی نشاندہی کی گئی تھے جسے انسانی زاویے کی مدد سے پیش کیا گیا تھا۔

ان کے خیال میں ہر ریاست کی حکومت کو اس فلم کو اپنانا چاہیے تھا کیوں کہ اس میں ایک اہم پیغام دیا گیا تھا۔

سودیپٹو سین کی ایک اور فلم گزشتہ ہفتے ریلیز ہوئی جس کی کہانی ماؤ باغیوں کے گرد گھومتی ہے، اس فلم کو ناقدین نے ’دو گھنٹے تک کمیونزم کے خلاف گالیوں کی بوچھاڑ‘ قرار دیا ہے۔

بھارت میں دائیں بازو کی جماعتیں جہاں ان فلموں کو پسند کرتی ہیں وہیں ان فلموں پر پابندی کی بھی تلوار لٹکائی گئی ہے جن سے ہندو مذہب کے افراد کے جذبات مجروح ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

ان فلموں میں سرفہرست شاہ رخ خان کی سپر ہٹ فلم پٹھان ہے جس کے ایک گانے ’بے شرم رنگ‘ کی ویڈیو میں رعفرانی رنگ کا لباس پہننے پر قوم پرست جماعتیں سیخ پا ہوگئی تھیں، اور فلم کی ریلیز بھی خطرے میں پڑ گئی تھی۔

’فلم ساز بے اختیار ہیں‘

ان حالات پر تجزیہ دیتےہوئے نیشنل ایوارڈ وننگ ہدایتکار اونیر کا کہنا تھا کہ ان جیسے فلمساز خود کو بے اختیار سمجھتے ہیں۔

انہوں نے اپنی ہی ایک فلم اسکرپٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی کہانی کو وزارت دفاع نے صرف اس لیے رد کردیا تھا کیوں کہ اس میں ایک بھارتی فوجی کو ایک ایسے کشمیری مرد سے محبت ہوجاتی ہے جس کے خلاف وہ لڑ رہا ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ایسی فلمیں جن سے بھارتی حکومت کے بیانیے کو تقویت ملتی ہے انہیں پاس کردیا جاتا ہے اور جو ان کے خلاف جائیں وہ اینٹی نیشنل یعنی ملک دشمن قرار دی جاتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے خوف کی فضا پروان چڑھتی ہے اور برابری کی نفی ہوتی ہے۔

اونیر نے یہ بھی واضح کیا کہ اقلیتوں کے خلاف بنائی جانے والی فلمیں باکس آفس پر زیادہ بزنس کرتی ہیں، جس سے دیگر فلم سازوں کا حوصلہ بڑھتا ہے اور وہ بھی اسی قسم کی فلمیں بناتے ہیں۔

اس کے برعکس چند فلمسازوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کی فلموں کی کامیابی سے نئے مواقع سامنے آئے ہیں۔

راجا سین سمجھتے ہیں کہ بالی وڈ میں اب قوم پرستی پر مبنی فلموں کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا ہے۔

انہوں نے ان فلموں کو آرٹسٹک ’ری بیلین‘ یعنی فنکارانہ بغاوت سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ دیگر فلم ساز بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں گے۔

اس تحریر کا زیادہ تر مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔

عمیر علوی – امریکا کی آواز

About the author

ceditor