کراچی — بھارت کی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کا شمار دنیا کی مقبول ترین کرکٹ لیگز میں ہوتا ہے۔ لیکن اب اس لیگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
برطانوی اخبار ‘دی ٹائمز’ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق آئی پی ایل کے حالیہ سیزن کے دوران مبینہ طور پر کم سے کم چھ کرکٹرز کو انٹرنیشنل کرکٹ ترک کرکے مستقل طور پر فرنچائز کرکٹ کا حصہ بننے کی آفر کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں ان چھ کرکٹرز کا نام تو ظاہر نہیں کیا گیا لیکن بعض دیگر رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ جن کھلاڑیوں کو سالانہ 20 لاکھ سے 50 لاکھ برطانوی پاؤنڈز (لگ بھگ 65 کروڑ روپے سے ڈیڑھ ارب پاکستانی روپے) کی یہ پیشکش ہوئی ہے اس میں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان جوس بٹلر شامل ہیں، جو اس وقت بھارت میں آئی پی ایل کھیل رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس مبینہ ڈیل کے ذریعے پورے سال کے لیے ان انگلش کرکٹرز کی خدمات حاصل کی جائیں گی جو اس وقت صرف آٹھ ہفتوں کے لیے بھارت میں آئی پی ایل کا حصہ بنتے ہیں۔
اگر انگلش کرکٹ بورڈ کی جگہ کھلاڑیوں نے بھارتی فرنچائز لیگ سے معاہدہ کر لیا تو انہیں موجودہ معاوضے سے پانچ گنا زیادہ معاوضہ ملے گا۔ اس ممکنہ معاہدے کے تحت یہ کھلاڑی سال کے 12 ماہ میں سے کم از کم سات مہینے ان کرکٹ لیگز کا حصہ ہوں گے جن میں ان کی فرنچائز پارٹنر ہے۔
خیال رہے کہ انگلینڈ میں ‘دی ہنڈریڈ’ کے نام سے ایک 100 بالوں کی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ بھی کھیلا جاتا ہے جو کافی مقبول ہو رہا ہے۔
🔺 EXCLUSIVE: Top English cricketers are considering giving up their central or county contracts to accept full-time deals with Indian Premier League (IPL) teams https://t.co/cO0Dw3cUAw
— Times Sport (@TimesSport) April 25, 2023
انگلینڈ کے کاؤنٹی کرکٹ سسٹم کو اس کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے دنیا بھر میں اہمیت دی جاتی ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق انگلینڈ کے چند کھلاڑیوں نے اگر آئی پی ایل کی فرنچائز سے مستقل معاہدہ کر لیا تو اس سے انٹرنیشنل کرکٹ کے ساتھ ساتھ کاؤنٹی کرکٹ کو بھی نقصان پہنچے گا۔
آئی پی ایل کو اپنا دائرہ بڑھانے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟
انٹرنیشنل کرکٹ کی مقبولیت 1990 کی دہائی کے مقابلے میں اس وقت بہت کم ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ دنیا بھر میں سال بھر ہونے والی فرنچائز لیگز ہیں۔
بنگلہ دیش سے لے کر ویسٹ انڈیز، پاکستان سے لے کر آسٹریلیا، سری لنکا سے لے کر انگلینڈ، ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ دنیا کے بہترین کھلاڑی اس کی لیگ کا حصہ بن جائیں۔
ابوظہبی میں کھیلی جانے والی ٹی ٹین لیگ بھی اس فہرست میں ایک نیا اضافہ ہے جس میں دنیا بھر کے کھلاڑی ایک دوسرے کی ٹیموں کے خلاف صرف 10 اوورز کے میچ میں آمنے سامنے ہوتے ہیں۔
اس لیگ میں زیادہ تر فرنچائز ٹیمیں ان افراد کے پاس ہیں جو انڈین پریمیئر لیگ میں ٹیموں کے مالک ہیں اور شاید اسی وجہ سے اس میں پاکستانی کرکٹرز کم نظر آتے ہیں۔
آئی پی ایل کی فرنچائز سے معاہدے کے پسِ پردہ سب سے بڑا مقصد ہی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو کھلاڑی فرنچائز سے سالانہ معاہدہ کرے گااُسے آئی پی ایل کے علاوہ کیریبین پریمیئر لیگ، ابوظہبی ٹی ٹین اور امریکہ میں رواں سال ہونے والی ٹی ٹوئنٹی لیگ سمیت ان تمام ٹورنامنٹس میں شرکت کرنا ہوگی جس میں اس فرنچائز کی ٹیم حصہ لے گی۔
Top English players are considering signing full-time contract with IPL teams and quitting their central contract. (Reported by The Times):
— Mufaddal Vohra (@mufaddal_vohra) April 27, 2023
– Contracts could be worth from 20cr to 50cr a year.
– They will play in different leagues for a franchise (upto 7 months).
رواں سال کے آغاز میں ایک خبر منظرعام پر آئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سعودی عرب بھی آئی پی ایل کی طرز پر ایک کرکٹ لیگ منعقد کرنا چاہ رہا ہے۔ لیکن بھارتی حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے فی الحال اس خبر میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
فٹ بال میں تو فرنچائز کنٹریکٹ کوئی نئی بات نہیں کیوں کہ وہاں انٹرنیشنل مقابلوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور کھلاڑیوں پر اپنے ملک کی نمائندگی کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ لیکن فی الحال کرکٹ میں فرنچائز لیگ کھیلنے کے لیے اب بھی کھلاڑیوں کو مقامی بورڈز سے اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے۔
صرف وہ کھلاڑی جو انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوچکے ہوں یا جن کے پاس اپنے بورڈ کا سینٹرل کنٹریکٹ نہ ہو، وہی فرنچائز کرکٹ میں بغیر اجازت شرکت کرسکتے ہیں۔ اس کی سب سے تازہ مثال نیوزی لینڈ کے فاسٹ بالر ٹرینٹ بولٹ ہیں جنہوں نے حال ہی میں سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط نہ کرکے فرنچائز کرکٹ کے لیے دستیابی ظاہر کی۔
Mohammed Siraj cleans up Jos Buttler for a duck with a beauty 🔥 #IPL2023pic.twitter.com/dydAMQm7mM
— Wisden (@WisdenCricket) April 23, 2023
آئی پی ایل میں 2009 میں انگلش کرکٹرز کی تعداد پانچ تھی جب کہ رواں سال 11 کھلاڑی اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ دو سال قبل انگلش کھلاڑیوں کی تعداد 14 تھی جو کہ اب تک سب سے زیادہ ہے۔
اگر اس مرتبہ آئی پی ایل نے انگلش کرکٹرز سے معاہدہ کرلیا تو سب سے زیادہ فائدہ انڈین پریمیئر لیگ کو ہوگا جس کے حکام اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جلد اس ٹورنامنٹ کو مزید طویل کرکے 10 ہفتوں تک لے جائیں گے۔
انگلینڈ کے کرکٹ بورڈ کا ردِعمل
آئی پی ایل سے متعلق مبینہ آفر پر انگلش کرکٹ بورڈ کا ردِ عمل بھی سامنے آ چکا ہے۔
ای سی بی کے چیف ایگزیکٹو رچرڈ گولڈ کا کہنا تھا کہ اس قسم کی آفرز کو روکنے کے لیے ان کے پاس ایک پلان موجود ہے جس کے ذریعے کھلاڑیوں کے معاوضے بھی بڑھائے جا سکتے ہیں۔
The ECB have a new leader at the helm.
— England's Barmy Army 🏴🎺 (@TheBarmyArmy) October 24, 2022
Richard Gould will take over in January with over 16 years of experience in the county game at Somerset & Surrey.
He has also been a critic of the 💯 pic.twitter.com/CKaAwyv7xn
کچھ کھلاڑیوں کو دو یا اس سے زیادہ سال کے کنٹریکٹ بھی دیے جا سکتے ہیں۔
معاوضے میں اضافہ، کئی کھلاڑی کریئر داؤ پر لگا چکے ہیں
‘دی ٹائمز’ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر پیش رفت جاری ہے اور چھ یا اس سے زائد کرکٹرز کے مستقبل کا فیصلہ رواں سال کے آخر تک ہو جائے گا جس کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں بھونچال آنے کا امکان ہے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو آئی پی ایل فرنچائز ان کھلاڑیوں سے کم دورانیے کی ڈیل بھی کرسکتی ہے جس کی رو سے کھلاڑی پوری آئی پی ایل کے بجائے کچھ عرصے تک ٹورنامنٹ کھیلنے کے پابند ہوں گے۔ اس طرح وہ فرنچائز کرکٹ کا بھی حصہ رہیں گے اور ان کی انٹرنیشنل ٹیم کو بھی اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کھلاڑیوں نے معاوضوں میں اضافے کے لیے انٹرنیشنل کریئر داؤ پر لگایا ہو۔ 1970 کی دہائی میں آسٹریلوی بزنس مین کیری پیکر نے اس وقت کے بہترین کرکٹرز کو بھاری معاوضوں کے عوض انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑ کر ورلڈ سیریز کا حصہ بننے کی آفر کی تھی۔
Players from West Indies and Australia have drinks during a World Series Cricket match in Sydney, 1979.#OnThisDay in 1977, news of the Kerry Packer Revolution first became public. pic.twitter.com/EGYCVFwXgK
— Wisden (@WisdenCricket) May 9, 2020
اس آفر کو پاکستان کے عمران خان، ویسٹ انڈیز کے سر ویوین رچرڈز اور انگلینڈ کے این بوتھم سمیت کئی کھلاڑیوں نے قبول کرکے اسے مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وقتی طور پر ان تمام بڑے ناموں پر ان کے کرکٹ بورڈز نے پابندی تو لگا دی تھی لیکن بعد میں کیری پیکر سے معاملات طے ہو جانے کے بعد ان کھلاڑیوں کو دوبارہ انٹرنیشنل ٹیم میں شامل کرلیا گیا تھا۔
اسی کی دہائی میں جب جنوبی افریقہ پر نسلی امتیاز کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے پر پابندی تھی۔ انگلش کرکٹر گراہم کوچ اور ویسٹ انڈین پیسر سلویسٹر کلارک سمیت کئی انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے بھاری معاوضے کی خاطر وہاں جاکر میچز کھیلے جس کے بعد وہ بھی پابندی کا شکار ہوئے۔
We celebrate Graham Gooch on #ICCHallOfFame – a bedrock of the England batting lineup during his career 👏
— ICC (@ICC) May 28, 2021
More 📽️ https://t.co/wNrHpZWubJ pic.twitter.com/M1mcDhlkKw
سال 2007 میں بھارت میں جب انڈین پریمیئر لیگ کا آئیڈیا سامنے آیا تب سابق کپتان کپیل دیو کی زیرِ نگرانی انڈین کرکٹ لیگ کا آغاز ہوا جسے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا اجازت نامہ نہ ملنے کی وجہ سے ‘باغی کرکٹ لیگ’ قرار دے کر اس میں شرکت کرنے والے کئی کھلاڑیوں پر ان کے کرکٹ بورڈز نے پابندی عائد کی۔
ان کھلاڑیوں میں پاکستان کے محمد یوسف، عمران نذیر، عبدالرزاق سمیت کئی نامور کھلاڑی شا مل تھے جنہیں پابندی ختم ہونے کے بعد ٹیم میں دوبارہ شامل کرلیا گیا تھا۔