شوبز فلمیں

چھ دہائیوں تک لازوال اداکاری؛ طلعت حسین کی والدہ ان کے شوبز میں آنے کے خلاف تھیں

Written by ceditor
طلعت حسین نے 1989 میں انٹرنیشنل کریئر کا سب سے بڑا کردار برطانوی منی سیریز ٹریفک میں کیا تھا۔پاکستان میں انہوں نے ساٹھ سالہ کریئر میں کئی فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں لازوال ادکاری کی۔
ان کا 1990 کی دہائی میں نشر ہونے والے ڈرامے کشکول میں ’عالی جاہ‘ کا کردار ہو یا ہوائیں میں میر محمد کا، وہ ہر کردار میں منفرد ہی نظر آئے۔
کراچی — یہ بات سال 2006 کی ہے جب طلعت حسین نے ناروے میں بننے والی فلم امپورٹ ایکسپورٹ پر بہترین معاون اداکار کا ایمانڈا ایوارڈ اپنے نام کیا تھا۔ اس ایوارڈ کے بارے میں پاکستان میں زیادہ لوگوں کو معلوم نہیں تھا۔ اس لیے جب میں نے انٹرویو کے لیے انہیں رجوع کیا تو انہوں نے پہلے حیرت اور پھر خوشی کا اظہار کیا۔

کراچی کی شارع فیصل پر واقع ان کے گھر پر جاکر جب میں نے ان سے اس ایوارڈ کی اہمیت کے بارے میں مزید پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ میاں، یہ اسکینڈی نیویئن ممالک کا آسکر ہے۔ یعنی یہ ناروے، ڈنمارک اور سوئیڈن میں بننے والی فلموں کو دیا جانے والا سب سے معتبر ایوارڈ ہے۔

ایک پاکستانی اداکار کے لیے اتنا بڑا ایوارڈ جیتنا کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔ لیکن طلعت حسین کے لیے یہ ایک اور ایوارڈ تھا۔ وہ جتنے پاکستان میں مقبول تھے، اتنے ہی پاکستان سے باہر بھی۔

وہ 1998 مین ریلیز ہونے والی انگریزی فلم جناح میں ایک چھوٹے مگر طاقت ور کردار میں بھی نظر آئے جب کہ 1989 میں بھارتی فلم سوتن کی بیٹی میں انہوں نے جتیندر، ریکھا اور جیہ پردا جیسے اداکاروں کے سامنے اپنا لوہا منوایا۔

ان کے انٹرنیشنل کریئر کا سب سے بڑا کردار بلاشبہ برطانوی نشریاتی ادارے ’چینل فور‘ کے لیے بننے والی منی سیریز ٹریفک میں تھا جس میں انہوں نے مرکزی ولن کا کردار بخوبی نبھایا تھا۔

سن 1989 میں بننے والی اس منی سیریز میں پاکستانی اداکاروں جمال شاہ، فریال گوہر، راحت کاظمی اور شکیل نے بھی اداکاری کی تھی لیکن مرکزی ہیروئن اسمگلر طارق بٹ کے روپ میں طلعت حسین خوب جچے۔

پاکستان میں بھی انہوں نے ساٹھ سالہ کریئر میں کئی فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں لازوال ادکاری کی۔ 1990 کی دہائی میں نشر ہونے والے ڈرامے کشکول میں ’عالی جاہ‘ کا کردار ہو یا ہوائیں میں میر محمد کا، وہ ہر کردار میں منفرد ہی نظر آئے۔

ستر اور 80ء کے عشرے میں بھی انہوں نے پرچھائیاں، بندش، کارواں، جیسے ہٹ ڈراموں میں اداکاری کی جب کہ 1990 کی دہائی میں نادان نادیہ، جانے انجانے اور دیس پردیس جیسے ڈراموں میں بھی نظر آئے۔

وہ 55 سال تک فلموں سے بھی وابستہ رہے۔ سن 1962 میں چراغ جلتا رہا سے ان کا جو فلمی سفر شروع ہوا، وہ 2019 میں پراجیکٹ غازی پر ختم ہوا جس میں وہ مرکزی ولن ہی کے روپ میں نظر آئے تھے۔

طلعت حسین کا شمار پاکستان کے ان اداکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اداکاری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ 1970 کی دہائی میں انہوں نے لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے تھیٹر آرٹس میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا جس کے بعد وطن واپس آکر انہوں نے اس آرٹ کی خدمت بھی کی۔

اپنے منفرد اسٹائل کی وجہ سے طلعت حسین ہر دور میں مقبول رہے۔

ان کا مکالمہ بولتے بولتے رک جانا ان کا ایک ایسا اسٹائل تھا جسے کئی افراد نے کاپی کیا۔

جب ان سے اس ‘پاز’ یعنی بات کرتے ہوئے رک جانے پر میں نے پوچھا تو انہوں نے اپنے مشہور ڈرامے انسان اور آدمی کی مثال دی، جس میں وہ ایک سوشل ورکر کے کردار میں نظر آئے تھے۔

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ اس سیریز کی ہر قسط کے آغاز میں ان کی انٹری اس وقت ہوتی تھی جب متاثرہ خاندان کسی مشکل وقت سے گزر رہا ہوتا تھا اور وہ انہیں دیکھ کر اپنی کہانی سناتے تھے۔ اس مصیبت زدہ خاندان کی کہانی سن کر ردعمل دینے سے پہلے وہ ایک پاز لیتے تھے، جو بعد میں ان کی پہچان بن گیا۔

طلعت حسین کے کریئر کا آغاز ریڈیو سے ہوا

اٹھارہ ستمبر 1940 کو دہلی میں پیدا ہونے والے طلعت حسین جب اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آئے تو اس وقت ان کے والد الطاف حسین وارثی سول سرونٹ تھے اور والدہ شائستہ بیگم ریڈیو پر پروگرام کرتی تھیں۔

تقسیم ہند کے بعد ان کی والدہ ریڈیو پاکستان کراچی سے منسلک ہوگئیں اور خبریں پڑھنے کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں سے بھی کئی برس تک وابستہ رہیں۔

فنون لطیفہ سے محبت کرنے والے ماحول میں پرورش پانے والے طلعت حسین نے جب اس فیلڈ میں آنے کی خواہش ظاہر کی تو ان کی والدہ نے اس کی مخالفت کی۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا ان کے شوہر کی طرح سول سروس میں جائے۔ لیکن بیٹے کی ضد کے سامنے وہ بے بس تھیں۔

پچاس کی دہائی میں طلعت حسین نے ‘اسکول براڈ کاسٹ ‘ نامی ریڈیو پروگرام سے کریئر کا آغاز کیا جس کے بعد ان کے لیے منزلیں آسان ہوتی گئیں۔ سن 1962 میں انہوں نے ہدایت کار فضل کریم فضلی کی چراغ جلتا رہا سے فلمی کرئیر کا آغاز کیا۔

یہ وہی فلم تھی جس نے محمد علی، زیبا بیگم، دیبا بیگم اور کمال ایرانی جیسے اداکاروں کو متعارف کرایا۔ بعد میں محمد علی اور طلعت حسین نے فلم انسان اور آدمی میں باپ بیٹے کا کردار بھی نبھایا جب کہ زیبا بیگم اس فلم میں ان کی ماں کے کردار میں نظر آئیں۔

ساٹھ کی دہائی میں جہاں انہوں نے وحید مراد کی بطور ہدایت کار فلم اشارہ میں بھی معاون کردار ادا کیا وہیں کلر فلموں کے آنے کے بعد ہدایت کار پرویز ملک کی لاتعداد ہٹ فلموں میں بھی اداکاری کی جن میں مرکزی ہیرو اداکار ندیم ہوا کرتے تھے۔

طلعت حسین کی اداکاری سے تو لوگ واقف تھے ہی، حال ہی میں ان کی لکھی گئی تحریروں پر ان کے شاگردوں کلثوم آفتاب اور فواد خان نے صندوق کے عنوان سے ڈرامہ بھی کیا جس میں ان کی لکھی گئی کہانیوں کو منفرد انداز میں پڑھا گیا۔

نوے کی دہائی میں انہوں نے متعدد ڈراموں کی ہدایت کاری بھی کی جس میں سے ایک معروف انگریزی مصنف چارلس ڈکنز کے ناول ‘گریٹ ایکس پیکٹیشنز ‘کی ڈرامائی تشکیل تھی تو دوسری مصنف جیفری آرچر کے ناول ‘نہ کم نہ زیادہ کی’۔

عمر کے آخری حصے میں طلعت حسین ڈیمنشیا کا شکار ہوگئے تھے جس کی وجہ سے آخری پانچ برس میں وہ ٹی وی یا فلموں میں بہت کم نظر آئے۔ لیکن بطور وائس اوور آرٹسٹ مختلف اشتہاروں میں ان کی آواز آج بھی سنائی دیتی ہے۔

سن 2023 میں آن ٹی وی پر نشر ہونے والا ڈرامہ ‘نہ تمہیں خبر تھی نہ ہمیں خبر’ ان کے کریئر کا آخری ڈرامہ ثابت ہوا جب کہ سائنس فکشن فلم ‘پراجیکٹ غازی’ میں وہ آخری مرتبہ ہمایوں سعید اور شہریار منور کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔

وہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک کراچی میں موجود نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس سے بھی منسلک رہے جہاں انہوں نے نوجوانوں کو اداکاری ، ہدایت کاری اور اسکرپٹ رائٹنگ کے حوالے سے سکھایا۔ ان کے کئی شاگرد اس وقت فیلڈ میں ان کا نام روشن کررہے ہیں۔

طلعت حسین کی بیٹی تزین حسین نے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اداکاری کا شعبہ اپنایا اور کئی کامیاب ڈراموں میں اس وقت انہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ درس و تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں جب کہ ان کے بیٹے اشعر حسین نوے کی دہائی میں ڈرامہ سیریز ‘روزن زنداں’ میں نظر آئے تھے۔

طلعت حسین کو 1982 میں فن کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا جب کہ تین سال قبل انہیں ستارہ امتیاز بھی دیا گیا تھا۔

ان کے کریڈٹ پر متعدد نگار ایوارڈز اور پی ٹی وی ایوارڈز بھی ہیں جو انہوں نے اپنے کرئیر کے دوران جیتے۔

عمیر علوی – امریکا کی آواز

About the author

ceditor