اسپورٹس

کرکٹ کے وہ کھلاڑی جن کا فیصلہ امپائر کے بجائے عدالت نے دیا

Written by Omair Alavi

کراچی — 

کرکٹ کا کھیل بھی عجیب ہے۔ ایک طرف یہاں اچھی کارکردگی پر داد ملتی ہے تو دوسری جانب بری کارکردگی پر الزامات بھی لگتے ہیں۔ لیکن دنیا میں کچھ ایسے بھی کرکٹرز ہیں جنہیں ان کی ‘آف دی فیلڈ’ سرگرمیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی جیت یا ہار کا فیصلہ امپائر نے نہیں بلکہ عدالت نے کیا۔

ان دنوں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم بھی کچھ ایسے ہی حالات سے گزر رہے ہیں۔

لاہور کی ایک عدالت نے گزشتہ ہفتے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو حکم دیا تھا کہ وہ بابر اعظم کے خلاف ایک خاتون کو ہراساں کرنے اور بلیک میلنگ کے الزام میں مقدمہ درج کرے۔

بعدازاں بابر اعظم نے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جہاں ہائی کورٹ نے پیر کو بابر اعظم کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ماتحت عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فریقین سے جواب طلب کر لیا ہے۔

بابر اعظم پاکستان کے پہلے کھلاڑی نہیں جن پر اس قسم کا الزام لگا ہو۔

نامور کرکٹرز شاہد آفریدی، عبدالرزاق اور شاداب خان بھی ماضی میں ایسے الزامات کا سامنا کر چکے ہیں جب کہ بعض خواتین کی جانب سے شعیب ملک اور فاسٹ بالر سہیل تنویر کی مبینہ بیویاں ہونے کے دعوے بھی خبروں میں آ چکے ہیں۔

بابر اعظم پر الزام کس نے لگایا؟

بابر اعظم تینوں فارمیٹس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں۔
بابر اعظم تینوں فارمیٹس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں۔

گزشتہ برس نومبر میں لاہور کی رہائشی حامزہ بی بی نے بابر اعظم پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ بابر نے 2011 میں ان سے کورٹ میرج کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے کے بعد انہوں نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا۔

خاتون نے دعویٰ کیا تھا کہ بابر اعظم اُنہیں گھر سے بھگا کر لے گئے تھے جس کے بعد وہ دونوں ایک کرائے کے مکان میں ایک ساتھ رہے۔ حامزہ کے بقول انہوں نے نوکری کی اور جتنی آمدنی ہوئی وہ بابر اعظم کو دیتی رہیں۔

کرکٹرز اور کورٹ کچہری

کورٹ کچہری کرکٹرز کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ کرکٹ میں جہاں ہیرو ہیں وہاں ولن بھی ہیں۔ ایسے ہی کچھ کرداروں کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے عدالت میں پیشیاں بھگتیں۔ ان میں سے کچھ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ کچھ سرخرو ہو کر آگے بڑھ گئے۔

ان کھلاڑیوں میں کرکٹ کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے ملزمان کا ذکر نہیں بلکہ صرف ان پر بات ہو گی جو عدالت گئے اور اُنہیں سزا ملی یا الزامات سے بری ہوئے۔

عمران خان کی عدالت میں فتح

ابھی 1992 کے ورلڈ کپ کو گزرے دو سال ہی ہوئے تھے کہ پاکستان کے خلاف ایونٹ کا فائنل کھیلنے والے این بوتھم اور ایلن لیمب نے عمران خان کے خلاف ہتکِ عزت کا کیس کر دیا۔

1992 کے ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کے کپتان عمران خان
1992 کے ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کے کپتان عمران خان

انگلش کھلاڑیوں کا مؤقف تھا کہ عمران خان نے ایک بھارتی جریدے کو انٹرویو کے دوران ان کی تذلیل کی۔ انہیں جاہل اور خراب بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کہا۔ تاہم عمران خان نے اس انٹرویو سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔

کیس کے لیے فریقین کو عدالت نے طلب کیا جہاں دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے عمران خان کے حق میں فیصلہ سنایا۔

یہی نہیں برطانوی عدالت نے عمران خان پر مقدمہ کرنے والے دونوں انگلش کھلاڑیوں کو پانچ لاکھ پاؤنڈ ہرجانے کا بھی حکم دیا۔

کھیل کا وقار داؤ پر لگانے والے کرکٹرز بھی عدالت گئے

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ ان تمام خوبیوں کے حامل تھے جو ایک پاکستانی کپتان میں ہونی چاہئیں۔ لیکن ان کے اندر ایک ایسی خامی بھی تھی جس نے ان کے کریئر کو جلد ہی ختم کر دیا۔

سال 2010 کی بات ہے جب انگلینڈ کے دورے پر اُنہیں شاہد آفریدی کی اچانک ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔ لیکن انہوں نے آسٹریلیا کو ٹیسٹ میچ میں شکست دینے کے بعد سٹے بازوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔

میچ فکسنگ کے جرم میں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کرکٹ سے دوری کی سزا کاٹ چکے ہیں۔
میچ فکسنگ کے جرم میں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کرکٹ سے دوری کی سزا کاٹ چکے ہیں۔

انہوں نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کے دوران اسپاٹ فکسنگ کی اور اپنے ساتھ ساتھ فاسٹ بالر محمد آصف اور محمد عامر کو بھی شامل کیا۔ جس کے بعد ان تینوں کھلاڑیوں کو نہ صرف پولیس نے گرفتار کیا بلکہ ان پر برطانیہ کی عدالت میں کیس بھی چلا۔

عدالت سے قصوروار قرار دیے جانے کے بعد سلمان بٹ پر دس، محمد آصف پر سات جب کہ محمد عامر پر پانچ سال کی پابندی عائد کی گئی۔

سلمان بٹ اور محمد آصف برطانیہ کی جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی کرکٹ نہ کھیل سکے لیکن محمد عامر نے ٹیم میں کم بیک تو کیا لیکن آج کل وہ اسی کرکٹ بورڈ سے ناراض ہیں جو انہیں واپس لانے کے لیے ان کے مخالفین کے سامنے ڈٹ گیا تھا۔

دانش کنیریا کے عدالتوں میں چکر

پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے لیگ اسپنر دانش کنیریا بھی کورٹ کچہری کے چکر لگا چکے ہیں۔ انگلش کرکٹ بورڈ نے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں ان پر تاحیات پابندی لگا دی تھی۔

لیگ اسپنر دانش کنیریا کو تاحیات پابندی کی سزا کا سامنا ہے۔
لیگ اسپنر دانش کنیریا کو تاحیات پابندی کی سزا کا سامنا ہے۔

سابق بھارتی فاسٹ بالر سری سانتھ بھی انڈین پریمیئر لیگ کے دوران اسپاٹ فکسنگ میں ملوث پائے گئے۔ وہ بھی جیل کی ہوا کھا چکے ہیں اور ان پر بھی تاحیات پابندی عائد ہے۔

ناصر جمشید کو دو مرتبہ جیل جانا پڑا

سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر برطانیہ کی جیلوں میں قیدی بننے والے آخری پاکستانی کرکٹرز نہیں تھے۔ ان کے بعد سابق اوپننگ بلے باز ناصر جمشید بھی برطانوی جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے اور قصور وار ٹھیرائے جانے پر ناصر جمشید بھی برطانیہ کی جیل میں 17 ماہ گزار چکے ہیں۔ اس سے قبل وہ پاکستان کی ایک جیل میں بھی سزا کاٹ چکے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے بعد انہوں نے میٹرک کا امتحان دیا اور امتحانی مرکز میں نقل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ جس پر انہیں زندگی میں پہلی بار جیل جانا پڑا۔

قانون کے لمبے ہاتھ، سب کے لیے برابر

اپنی جارحانہ بیٹنگ کی وجہ سے بالرز کے لیے دہشت کے طور پر مشہور اعجاز احمد بھی لین دین کے ایک تنازع کی وجہ سے پولیس کے مہمان بنے تھے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

ریٹائرمنٹ کے بعد سابق ٹیسٹ کرکٹر کو دو ہفتے جیل میں اس وقت گزارنا پڑے جب ان کا ایک کروڑ روپے کا چیک باؤنس ہوا اور کیش نہ ملنے کی وجہ سے ان کی شکایت پولیس تک پہنچی۔

ویسے تو عمر اکمل کو ان کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی وجہ سے کئی بار سزا ہو چکی ہے لیکن انہیں جیل کی ہوا تب کھانا پڑی جب انہوں نے لاہور میں ایک ٹریفک وارڈن سے بدتمیزی کی۔

لڑائی جھگڑے پر عدالت کا سامنا کرنے والے کرکٹرز

بظاہر بے ضرر سے نظر آنے والے انگلش لیفٹ آرم اسپنر فل ٹف نیل کو نوے کی دہائی میں ایک ویٹر سے بدتمیزی کے بعد ‘ڈرائنگ روم کی سیر’ کرنا پڑی تھی۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

انہی کے ہم وطن انگلش کرکٹر بین اسٹوکس کو برسٹل میں ہونے والے ایک جھگڑے میں ملوث ہونے پر رات حوالات میں گزارنا پڑی جب کہ انہیں ٹیم کی نائب کپتانی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔

ذاتی مسائل پر بھی کئی کرکٹرز نے عدالت کا چکر لگایا

کچھ کرکٹرز ایسے بھی گزرے ہیں جن کی آف دی فیلڈ سرگرمیاں ان کے مداحوں کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کے لیے بھی مشکل کا باعث بنیں۔

سن 2007 میں سابق پاکستانی وکٹ کیپر معین خان کی اہلیہ تسنیم خان نے ان کے خلاف رپورٹ درج کرائی جس میں اُن پر مار پیٹ کے الزامات عائد کیے۔

معین خان کو ضمانت کے بعد رہائی تو مل گئی تھی لیکن بعد میں انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنے کیے پر شرمندگی کا اظہار بھی کیا تھا۔

جنوبی افریقہ کے مایہ ناز فاسٹ بالر مکھایا نتینی کو 1999 میں جیل میں کچھ دن گزارنا پڑے تھے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ زیادتی کی۔ وکلا کی کوششوں کی وجہ سے نتینی چھ سال کی قید سے تو بچ گئے لیکن اپنے کریئر پر لگا داغ نہ ہٹا سکے۔

سابق جنوبی افریقی فاسٹ بالر مکھایا نتینی
سابق جنوبی افریقی فاسٹ بالر مکھایا نتینی

ادھر انڈین پریمیئر لیگ کے دوران آسٹریلوی کرکٹر لیوک پومرزباک پر ایک لڑکی نے جنسی زیادتی کا الزام لگایا۔ معاملہ عدالت سے باہر حل تو ہو گیا، لیکن پومرزباک کو کچھ وقت پولیس کی حراست میں رہنا پڑا۔

کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی کرکٹر روبیل حسین کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ بنگلہ دیشی اداکارہ نازنین اختر ہیپی نے ان پر اس وقت زیادتی کا الزام لگایا تھا جب وہ قومی ٹیم کی ورلڈ کپ میں نمائندگی کی تیاری کر رہے تھے۔

تین دن جیل میں رہنے کے بعد روبیل کو میگا ایونٹ میں شرکت کے لیے ضمانت پر رہائی ملی۔

کیس میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب انہوں نے انگلینڈ کے خلاف کامیابی میں اہم کردار ادا کیا اور نازنین اختر ہیپی کے وکیل نے معاملہ آگے بڑھانے سے معذرت کر کے روبیل حسین کو ہیپی کر دیا۔

روبیل حسین بیٹنگ کرتے ہوئے۔ (فائل فوٹو)
روبیل حسین بیٹنگ کرتے ہوئے۔ (فائل فوٹو)

لیکن انہی کے ہم وطن ناصر حسین اتنے خوش قسمت نہیں رہے۔ ان کی اہلیہ کے سابق شوہر نے بنگلہ دیشی کرکٹر پر جنسی زیادتی کا مقدمہ کیا ہے جسے دونوں میاں بیوی بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔

ناصر حسین کو 30 مارچ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے جہاں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ متوقع ہے۔

ایک اور بنگلہ دیشی کرکٹر شہادت حسین اور ان کی اہلیہ پر الزام تھا کہ انہوں نے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ پر تشدد کیا۔ انہیں عدالت نے بعد میں ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے باعزت بری تو کر دیا لیکن انہیں اپنے کریئر سے ہاتھ دھونا پڑا۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔