اسپورٹس

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: وہ کرکٹرز جن کا یہ الوداعی ٹورنامنٹ ہو سکتا ہے

Written by Omair Alavi

کراچی — 

متحدہ عرب امارات اور عمان میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کا میلہ سج چکا ہے جس میں دنیا بھر کے بہترین کھلاڑی اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

ان ہی کھلاڑیوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو متوقع طور پر اپنے ملک کے لیے آخری بار ورلڈ کپ میں نمائندگی کر رہے ہیں جب کہ یہ تجربہ کار ہونے کی وجہ سے مخالف ٹیموں کے لیے خطرہ بھی بن سکتے ہیں۔

ان میں وہ کھلاڑی بھی شامل ہیں جو پہلے بھی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا حصہ تھے جب کہ کچھ ایسے ہیں جنہیں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے انتظار کرنا پڑا۔

آئیے ایسے ہی چند کھلاڑیوں پر نظر ڈالتے ہیں جو اپنا آخری ورلڈ کپ کھیل رہے ہیں۔

کرس گیل (ویسٹ انڈیز)

خود کو ‘یونی ورسل باس’ کہنے والے ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی کرس گیل نہ صرف ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سینچری بنانے والے پہلے کھلاڑی تھے بلکہ وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں یہ کارنامہ دو مرتبہ سر انجام دینے والے پہلے کھلاڑی بھی ہیں۔

آسٹریلیا کے خلاف رواں برس جولائی میں کھیلے گئے ایک ٹی ٹوئنٹی میچ میں انہوں نے 38 گیندوں پر 67 رنز کی میچ وننگ اننگز کھیل کر مین آف دی میچ کا ایوارڈ جیتا۔ لیکن اس کے بعد سے دو بار ورلڈ کپ جیتنے والے کھلاڑی کو ان کی ماضی کی پرفارمنس پر منتخب کیا جا رہا ہے نہ کہ موجودہ کارکردگی پر۔

اور یہی کچھ کہنا تھا سابق ویسٹ انڈین فاسٹ بولر کرٹلی ایمبروز کا جنہوں نے ورلڈ کپ سے قبل 42 سالہ آل راؤنڈر کی فارم اور فٹنس پر سوال اٹھایا جس کا جواب کرس گیل میدان میں دینے کے لیے بے تاب ہیں۔

محمد حفیظ (پاکستان)

اگر کرس گیل کو دنیا ‘یونی ورسل باس’ کہتی ہے تو محمد حفیظ بھی پروفیسر ہیں، 41 سالہ سابق پاکستانی کپتان کو آج بھی بعض ماہرین قومی ٹیم کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔

وہ اپنی بیٹنگ کے ساتھ ساتھ بولنگ سے کسی بھی میچ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔

رواں سال ویسٹ انڈیز کے دورے پر واحد میچ میں ان کی کارکردگی اتنی شان دار تھی کہ انہیں مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔

عض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر محمد حفیظ کا بلا چل گیا تو کوئی انہیں روک نہیں سکتا جب کہ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے بلے بازوں کے لیے وہ آج بھی کسی خطرے سے کم نہیں۔ آج بھی وہ اپنی قابلِ بھروسہ فیلڈنگ کی وجہ سے ٹیم کے ایک اہم رکن تسلیم کیے جاتے ہیں۔

لیکن ورلڈ کپ سے قبل انہیں ڈینگی بخار ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں شرکت نہیں کر سکے تھے۔ وہ آؤٹ آف پریکٹس ضرور ہیں، لیکن ان کا تجربہ اتنا وسیع ہے کہ شائقین ان سے آج بھی اچھی کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں۔

خود حفیظ بھی چاہتے ہیں کہ وہ یہ ورلڈ کپ جیت کر نہ صرف اپنے کریئر کو یادگار بنائیں بلکہ ان کھلاڑیوں میں شامل ہو جائیں جنہوں نے ایک سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتے ہوں۔

شعیب ملک (پاکستان)

اس وقت ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جتنے کھلاڑی بھی منتخب ہوئے ہیں ان میں صرف دو نے نوے کی دہائی میں ڈیبیو کیا، ایک ہیں ویسٹ انڈیز کے کرس گیل، اور دوسرے ہیں پاکستان کے شعیب ملک۔

پاکستان کے سابق کپتان کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے اسکواڈ میں انجرڈ صہیب مقصود کی جگہ آخری موقعے پر شامل کیا گیا اور وہ اس انتخاب کو درست ثابت کرنے کے لیے بہترین کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔

آسٹریلوی کھلاڑی اسٹیو اسمتھ کی طرح شعیب ملک نے بھی بحیثیت اسپنر اپنا کریئر شروع کیا تھا، آہستہ آہستہ ان کی بیٹنگ میں نکھار آتا رہا اور اس وقت 39 برس کی عمر میں بھی وہ اپنے بلے سے رنز اُگلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس کا ثبوت انہوں نے رواں برس پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چھٹے ایڈیشن، کشمیر پریمیئر لیگ اور نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں دیا۔

ڈین کرسچن (آسٹریلیا)

اڑتیس سال کی عمر میں ڈین کرسچن نے آسٹریلیا کی ون ڈے ٹیم میں سات اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں چار برس بعد کم بیک کیا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ عمر سے کچھ نہیں ہوتا، اگر کھلاڑی میں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا حوصلہ ہے تو کسی بھی عمر میں ملک کی نمائندگی کر سکتا ہے۔

بنگلہ دیش کے خلاف انہوں نے رواں برس ہونے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بہتر بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور سیریز میں آسٹریلیا کی واحد کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

بنگلہ دیشی آل راؤنڈر شکیب الحسن کو ہوم گراؤنڈ پر اور ہوم کراؤڈ کے سامنے ایک ہی اوور میں پانچ چھکے مارنا دوسروں کے لیے مشکل ہو گا، لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا وسیع تجربہ رکھنے والے ڈین کرسچن کے لیے نہیں۔

وہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ بولنگ میں بھی کام آ سکتے ہیں اور ورلڈ کپ کی اس سلیکشن کو درست ثابت کرنے اور آسٹریلیا کو پہلا ورلڈ کپ جتوانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ڈوین براوو (ویسٹ انڈیز)

جب بھی ویسٹ انڈین کرکٹ کے آل راؤنڈرز کی بات ہو گی، ڈوین براوو کا نام ٹاپ تین میں آئے گا۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں 400 وکٹوں کا سنگِ میل عبور کرنے والے اس کھلاڑی نے اپنی ٹیم کو دو بار عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

رواں برس آسٹریلیا کے خلاف 47 ناٹ آؤٹ کی میچ وننگ اننگز ہو یا جنوبی افریقہ کے خلاف چار وکٹوں کا کارنامہ، 38 سالہ ڈوین براوو اپنے تجربے کی وجہ سے آج بھی ویسٹ انڈیز کے کام آتے ہیں۔

نہوں نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد اس فارمیٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان تو کر دیا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ فیئرویل سیمی فائنل میں لیں گے یا فائنل میں۔

کیون او برائن (آئرلینڈ)

اور آخر میں بات آئرش ٹیم کے اس مردِ بحران کی جس نے اپنی ٹیم کی یادگار فتوحات میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان کے خلاف 2007 کے ورلڈ کپ میں کامیابی ہو یا پھر بنگلہ دیشی ٹیم کے خلاف 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں یادگار فتح، کیون او برائن کی پر فارمنس ہمیشہ ان کی ٹیم کے کام آئی۔

سینتیس سال کی عمر میں یہ ورلڈ کپ ان کا آخری ضرور ہو سکتا ہے، لیکن یہی بات انہیں مخالف ٹیموں کے لیے خطرناک بھی بنا سکتی ہے۔

سال 2011 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف ان کی 50 گیندوں پر بنی سینچری جس کو بھی یاد ہے، وہ آج بھی ان کی میچ وننگ صلاحیتوں کا معترف ہے۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔