کراچی —
رواں سال جہاں کرونا وائرس کی وجہ سے انسانیت کو کئی نقصانات اٹھانا پڑے، وہیں خلا میں سیاحوں کے سفر کا آغاز بھی ہوا۔
کل تک جس خلا کے سفر کو صرف سنیما کے پردے یا ٹی وی پر دیکھا جاتا تھا۔ وہ حقیقت بن کر نہ صرف سامنے آیا بلکہ عوام کو امید ہے کہ بہت جلد دنیا سے باہر کی کائنات دیکھنے کا انہیں بھی موقع ملے گا۔
اس سفر سے جہاں سائنس دان حوصلہ کیے ہوئے ہیں کہ وہ درست سمت میں جا رہے ہیں۔ وہیں سائنس فکشن سے لگاؤ رکھنے والے ایک اور سفر پر جانے کی امید لگائے بیٹھے ہیں اور وہ سفر ہے ‘ٹائم ٹریول’ یعنی ماضی یا مستقبل میں جانے کا سفر۔
معروف مصنف ایچ جی ویلز کے ناول ‘دی ٹائم مشین’ سے جس سفر کا آغاز ہوا تھا۔ اسے متعدد بار مختلف طریقوں سے فلموں میں پیش بھی کیا گیا۔
ٹام کروز کی شہرہ آفاق فلم ‘مائی نوریٹی رپورٹ’ میں اگر کسی نہ ہونے والے واقعے کو روکنے کی کوشش کی تو ‘ٹینیٹ’ میں مستقبل سے آنے والے خطرے سے نمٹا گیا۔
یہاں بات اس سفر کی نہیں ہو رہی جو ہوا ہی نہیں بلکہ اس سفر کا ذکر ہوگا جس میں کچھ ہونے یا نہ ہونے کے باوجود حال میں تبدیلیاں آئیں اور جس پر جانے کا خیال ہر اس شخص کو آیا جس نے اس کی اہمیت کو سمجھا۔
آئیے ایسی ہی 8 ہالی وڈ کی فلموں پر نظر ڈالتے ہیں جس میں ایک یا کئی کرداروں نے ماضی میں جاکر اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنایا اور سائنس دانوں کو ‘ٹائم ٹریول’ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔
سم ویئر ان ٹائم (1980)
ویسے تو 1978 میں اداکار کرسٹوفر ریو ‘سپر مین’ کے آخری لمحات میں ‘ٹائم ٹریول’ کرکے اپنی محبوبہ لوئس لین کو زندہ کر چکے تھے۔ البتہ ‘سم ویئر ان ٹائم’ میں ان کے ماضی کے سفر کو زیادہ شہرت ملی۔
فلم کی کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو ایک ایسی عورت سے ملنے کے لیے ماضی میں جاتا ہے جسے اس نے صرف ایک تصویر میں دیکھا ہوتا ہے۔
اس فلم میں نہ تو کوئی ٹائم مشین دکھائی گئی اور نہ کوئی ایسا حادثہ ہوا جس نے ہیرو کو ماضی میں بھیجا بلکہ اس میں مرکزی کردار نے 1980 سے 1912 تک کا سفر ‘ہپنوسس’ کے ذریعے طے کیا۔
فلم میں ہیرو اور ہیروئن آخر میں مل نہیں پاتے لیکن اس نے ٹائم ٹریول فلموں کو ایک نئی زندگی بخشی۔ جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
دی ٹرمینیٹر: (1984) اور ٹرمنیٹر ٹو – ججمنٹ ڈے (1991)
جب بھی ماضی میں جانے والی فلموں کی بات ہو گی ہدایت کار جیمز کیمرون کی ‘ٹرمینیٹر’ سیریز کا ذکر ضرور آئے گا۔
فلم کی کہانی تو حال میں پیش آتی ہے لیکن اس کے دو مرکزی کردار ‘ٹرمینیٹر’ اور ‘کائل ریس’ دونوں کو مستقبل سے ماضی میں بھیجا جاتا ہے۔
ایک طرف ‘ٹرمینیٹر’ کا کردار ادا کرنے والے آرنلڈ شوار زنیگر کا مشن ہوتا ہے سارہ کورنر کو ختم کرنا تاکہ مستقبل کا جنگجو لیڈر جان کونر پیدا ہی نہ ہو۔ تو دوسری جانب مستقبل کا جان کونر اپنے ایک قریبی ساتھی کائل ریس کو اپنی ماں کو بچانے کے لیے ٹرمینیٹر کے پیچھے بھیجتا ہے تاکہ حال میں ہونے والے واقعے کا اثر مستقبل پر نہ پڑے۔
فلم کے سیکوئیل میں نوجوان جان کونر کو ختم کرنے کے لیے مستقبل سے ایک بہتر ٹرمینیٹر بھیجا جاتا ہے جس سے لڑنے کے لیے آرنلڈ شوار زنیگر کا کردار اس بار جان کونر کی مدد کرتا ہے۔
آرنلڈ شوار زنیگر اور سارہ کونر بننے والی لنڈا ہیملٹن نے یہ کردار بعد میں متعدد فلموں میں ادا کیے البتہ ‘دی ٹرمینیٹر’ اور اس کے سیکوئل ‘ٹرمنیٹر-ٹو’ کو جو شہرت ملی وہ اس سیریز کی کسی اور فلم کو نصیب نہ ہوسکی۔
ٹائم ٹریول کا جو تصور اس فلم نے پیش کیا گیا اسے آگے جاکر ‘مین ان بلیک تھری’ میں بھی استعمال کیا گیا جہاں ول اسمتھ کا کردار اپنے ساتھی کو مرنے سے بچانے کے لیے ماضی میں ‘چھلانگ’ لگاتا ہے۔
بیک ٹو دی فیوچر سیریز (1990-1985)
ٹائم ٹریول فلموں میں ‘بیک ٹو دی فیوچر’ کو وہی مقام حاصل ہے جو ایکشن فلموں میں ‘ریمبو’ یا ‘کمانڈو’ کو دیا جاتا ہے۔
اس فلم میں مائیکل جے فوکس ایک ایسے نوجوان کا کردار ادا کرتے ہیں جسے ماضی میں جاکر سب کچھ بدلنے کا نادر موقع ملتا ہے اور جسے وہ مشکلات کے باوجود بھرپور انداز میں نبھاتا ہے۔
پہلی فلم میں مارٹی مک فلائی کا کردار 1985 سے 1955 میں جا کر اپنے والدین کی زندگی کو درست سمت میں رواں کرتا ہے تو دوسری فلم میں اسے مستقبل کی ایک جھلک واپس 1955 میں جانے پر مجبور کر دیتی ہے تاکہ وہ ‘فیوچر’ کو ٹھیک کرسکے۔
سیریز کی تیسری اور آخری فلم میں وہ اپنے دوست ڈوک براؤن کو بچانے 1885 میں جاتا ہے جہاں اس کی موت واقع ہو جانے کی صورت میں مستقبل کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
فلم میں ماضی کا سفر آسان بنانے والی گاڑی ‘ڈی لوریئن’ کو آج بھی شائقین ‘ٹائم مشین’ ہی سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں یہ موقع ہر انسان کی زندگی میں آنا چاہیے تاکہ وہ ایک بار ماضی میں واپس جاکر اپنے مستقبل کو سنوار سکے۔
سن 2019 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘ ایونجرزاینڈ گیم’ میں بھی اسی فلم کی مثال دے کر سپر ہیروز کو ٹائم ٹریول کی جانب مجبور کیا گیا تھا تاکہ تھینوس کو شکست دے کر سب کچھ واپس نارمل کیا جاسکے۔
گراؤنڈ ہوگ ڈے (1993)
بل مرے کا کردار اس فلم میں ماضی میں گیا نہیں بلکہ حال ہی میں ایک ایسے ٹائم لوپ میں پھنس گیا جس سے نکلنے میں اسے کئی مرتبہ اس دن کو جینا پڑا۔
فلم کی کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو ہر کسی کا مذاق اڑاتا ہے لیکن ‘گراؤنڈ ہوگ ڈے’ پر اسے یہ مذاق کافی مہنگا پڑ جاتا ہے۔
جب تک مرکزی کردار فل کونرز کو اپنے رویے پر شرمندگی نہیں ہوتی اور وہ ان لوگوں سے معافی نہیں مانگ لیتا جن کا اس نے دل دکھایا ہوتا ہے، وہ اسی ٹائم لوپ میں پھنسا رہتا ہے۔
فلم کے اس اسٹائل کو آگے جاکر کئی دیگر ہالی وڈ فلموں میں استعمال کیا گیا جس میں ٹام کروز کی ‘پریمونیشن’، ‘سورس کوڈ ‘ اور ‘ایج آف ٹومورو’ قابل ذکر ہیں۔
ٹائم کوپ (1994)
اگرچہ جان کلوڈ وین ڈیم کو ان کے مداح ایک ایکشن اسٹار کے طور پر جانتے ہیں لیکن فلم ‘ٹائم کوپ’ میں وہ ایک الگ ہی روپ میں نظر آئے۔
اس فلم میں انہوں نے میکس واکر کا کردار ادا کیا جو ایک ایسا پولیس والا ہے جو ماضی میں جاکر ان لوگوں کو حراست میں لیتا ہے جن کی وجہ سے حال اور مستقبل متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
کہانی میں ایک کرپٹ سیاست دان بھی ہے اور ماضی کی وجہ سے حال کے خراب ہونے کا خطرہ بھی اور اسی وجہ سے اس فلم کو وین ڈیم کی سب سے کامیاب فلم سمجھا جاتا ہے۔
فلم کی کہانی اس وقت اہم موڑ لیتی ہے جب میکس واکر کو ایک مشن اسی دن واپس لے جاتا ہے جس دن اس کی بیوی کا قتل ہو جاتا ہے اور قتل کی پیشگی اطلاع کی وجہ سے وہ اسے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
ٹویلیو منکیز: 1995
کرونا سے پہلے وبا سے تباہی کو جہاں کئی فلموں میں مرکزی خیال بنا کر پیش کیا گیا وہیں اس کے خاتمے کے لیے ٹائم ٹریول کا آئیڈیا بھی فلموں ہی سے آیا۔
ہدایت کار ٹیری گلیئم کی اس فلم میں اداکار بروس ولس نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا تھا جسے مستقبل سے حال میں اس لیے بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ وائرس پھیلانے والوں کا پتا لگا سکے اور اس کے بارے میں مستقبل کے سائنس دانوں کو بتا سکے۔ تاکہ وائرس کو ختم کر کے انسانیت کو دوبارہ آزاد زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔
فلم میں بروس ولس کے ساتھ ساتھ بریڈ پٹ، میڈلین اسٹو اور کرسٹوفر پلمر نے اہم کردار ادا کیے۔
فریکوئنسی (2000)
اگر ‘بیک ٹو دی فیوچر’ میں والدین کے ماضی کو ٹھیک کرکے مستقبل سنوارنے کی کوشش کی گئی تو ‘فریکوئنسی’ میں حال میں رہتے ہوئے ایسا کرنے کی کوشش سامنے آئی۔
فلم میں ریڈیو فریکوئنسی نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ اسی کی وجہ سے 1969 میں مر جانے والا ایک باپ، تیس سال بعد اپنے بڑے ہو جانے والے بیٹے سے بات کرسکتا تھا اور اس کے کہنے پر عمل بھی کرتا ہے۔
لیکن کہانی میں اس وقت ایک اہم موڑ آتا ہے جب 1999 میں بیٹھا ہوا بیٹا اپنے باپ کی ایسے مدد کرتا ہے کہ وہ 1969 میں مرنے سے بچ جاتا ہے جس کے بعد سب کچھ بدل جاتا ہے۔
ایک طرف بیٹا (جم کیویزیل) اپنے باپ (ڈینس کویڈ) کو بچاتے ہوئے اپنی ماں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے تو دوسری طرف ایک پولیس والا دونوں باپ بیٹے کی زندگی اجیرن کرنے پر تلا ہوا ہوتا ہے۔
فلم میں کوئی حال سے ماضی میں تو نہیں گیا لیکن حال کی وجہ سے ماضی میں کئی ایسی تبدیلیاں ضرور ہوئیں جو ٹائم ٹریول کے ہی زمرے میں آتی ہیں۔
دی بٹرفلائی ایفیکٹ (2004)
ماضی میں جانا صرف ٹائم مشین کے ذریعے ہی ممکن نہیں۔ کچھ لوگ اپنے ماضی کی چیزوں کو دیکھ یا پڑھ کر بھی وہاں پہنچ سکتے ہیں اور ایشٹن کچر نے ‘دی بٹر فلائی ایفیکٹ’ میں ایسا ہی کیا۔
اس فلم میں وہ بار بار ماضی میں گئے اور اپنی طرف سے ماضی کو بہتر کرنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن ماضی کا بدلاؤ حال میں تباہی مچائے گا۔ اس کا انہیں بہت دیر میں اندازہ ہوا۔
یہاں ٹائم ٹریول کے خطرات سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شاید اس کام کو حقیقت بننے میں تھوڑا زیادہ وقت لگ جائے۔