خبریں

عمران خان کو بطور کرکٹر جاننے والوں کے لیے اُن کا ‘سرپرائز’ نیا نہیں

Written by Omair Alavi

کراچی — 

عمران خان کا شمار دنیائے کرکٹ کے عظیم ترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔ ان کی قیادت میں نہ صرف پاکستان نے ورلڈ کپ کا ٹائٹل جیتا بلکہ آسٹریلیا، انگلینڈ ، بھارت اور ویسٹ انڈیز کو ان کی سرزمین پر شکست بھی دی۔

عمران خان نے تین اپریل کو بطور وزیر اعظمِ پاکستان تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے اسمبلی تحلیل کرنے کا جو فیصلہ کیا، اس پر مداح حیران جب کہ ناقدین نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن جو لو گ عمران خان کی کپتانی سے واقف ہیں ان کے لیے یہ ‘سرپرائز’ حیران کن نہیں تھا۔

کرکٹ کے میدان میں بطور کپتان عمران خان کی جانب سے ‘سرپرائز’ دینا معمول رہا ہے۔ انہوں نے اسی حیرا ن کردینے والی عادت کی وجہ سے پاکستان کو کئی میچز میں کامیابی دلوائی۔ ایسے ہی چند میچز پر نظر ڈالتے ہیں جن میں عمران خان نے مداحوں کے ساتھ ساتھ ناقدین کو پہلے حیران کیا اور پھر بازی جیت کر کامیابی اپنے نام کی۔

1۔ جب لیگ اسپنر عبدالقادر کو دفاع کے بجائے اٹیک کے لیے استعمال کیا

یہ 1970 اور 1980 کی دہائی کی بات ہے جب ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں بالرز کا راج ہو ا کرتا تھا اور وہ بھی ان بالرز کا جو تیز گیند بازی کرتے تھے۔ ہیلمٹ کا استعمال بھی انہی بالرز کے خلاف دفاع کے لیے استعمال کیا گیا۔ اُس زمانے میں پچاس اوورز کے میچ میں یا اسپنرز کو رنز روکنے کے لیے بالنگ دی جاتی تھی یا پھر فاسٹ بالرز کو آرام دینے کے لیے۔

ایسے میں عمران خان نے لیگ اسپنر عبدالقادر کو بطور ایک اٹیکنگ بالر استعمال کرکے دنیائے کرکٹ میں ہلچل مچادی۔عمران خان کے اس ‘سرپرائز’ نے دیگر ٹیموں کے کپتانوں کو بھی یہ راستہ دکھایا کہ اسپنر کو بھی اٹیکنگ بالر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

آگے جاکر نیوزی لینڈ کے کپتان مارٹن کرو نے 1992 کے ورلڈ کپ میں آف اسپنر دیپک پٹیل سے بالنگ کا آغاز کروا کر عمران خان کی دور اندیشی کی تائید کی۔ آج کرکٹ کے تمام فارمیٹس میں اسپنر ز کو بطور اٹیکنگ بالر استعمال کرنا عام ہے۔

2۔ جب عمران خان نے پورا ورلڈ کپ بطور بلے باز کھیلا

سن 1983 کے ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کو پہلی بار عمران خان کی قیادت میں شرکت کرناتھی۔ کپتان عمران خان انجری کی وجہ سے مکمل فٹ نہیں تھے، ایسے میں انہوں نے اپنی انجری کی پروا کیے بغیر آل راؤنڈر کے بجائے بطور بلے باز ٹیم کے ساتھ جانے کو ترجیح دی اور اپنے ون ڈے کریئر کی واحد سینچری اسکور کی۔

عمران خان کی بطور بالر غیر موجودگی کی وجہ سے پاکستان ٹیم کی ایونٹ میں کارکردگی مایوس کن رہی لیکن 283 رنز بناکر وہ انگلینڈ کے ڈیوڈ گاور اور گریم فاؤلر، ویسٹ انڈیز کے ویو رچرڈز، بھارت کے کپیل دیو اور ہم وطن ظہیر عباس کے بعد ایونٹ کے چھٹے بہترین بلے باز قرار پائے۔

3۔ جب عبدالقادر کو خود سے پہلے بیٹنگ کے لیے بھیجنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا

سن 1986 میں شارجہ کے مقام پر جاوید میانداد کابھارتی بالر چیتن شرما کی آخری گیند پر چھکا تو سب کو یاد ہو گا۔ لیکن صرف کرکٹ کو فالوکرنے والے جانتے ہیں کہ اگر عمران خان عبدالقادر کو اس میچ میں نمبر چھ پر نہ بھیجتے تو میچ کا نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا۔

آسٹرل ایشیا کپ کے فائنل میں بھارت نے پاکستان کو جیت کے لیے 246 رنز کا ہدف دیا تھا۔ مدثر نذر، رمیز راجہ اور سلیم ملک کے جلد آؤٹ ہوجانے کے بعد پاکستان ٹیم مشکلات کا شکار تھی، ایسے میں کپتان عمران خان نے خود بیٹنگ کے لیے آنے کے بجائے عبدالقادرکو آزمانے کا فیصلہ کیا اور ان کا یہ تجربہ کامیاب بھی رہا۔

پانچویں وکٹ کی شراکت میں عبدالقادر نے مین آف دی میچ جاوید میانداد کے ساتھ 71 قیمتی رنز جوڑ کر پاکستان کو جیت کی راہ پر گامزن بھی کیا اورعمران خان کے فیصلے کو درست ثابت کیا۔

جس وقت ایک چھکے اور ایک چوکے کی مدد سے 39 گیندوں پر 34 رنز بناکر عبدالقادر آؤٹ ہوئے، اس وقت دو ہی بلے باز ان سے زیادہ رنز بنا سکے تھے جن میں 116 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہنے والے جاوید میانداد اور 36 رنز بنانے والے اوپنر محسن خان شامل ہیں۔

4۔ جب کولکتہ میں بیٹنگ آرڈر کی تبدیلی نے میچ کا پانسہ پلٹا

سن 1987 میں جب پاکستان اوربھارت کی ٹیمیں کولکتہ کے میدان پر مدمقابل آئیں تو کرشنماچاری سری کانتھ کے 123 رنز کی بدولت ورلڈ چیمپئن ٹیم نے پاکستان کو 40 اوورز میں جیت کے لیے 239 رنز کا مشکل ہدف دیا۔

پاکستان نے نہ صرف سلیم ملک کے برق رفتار 36 گیندوں پر 72 ناٹ آؤٹ کی وجہ سے میچ تین گیندیں قبل جیتا بلکہ بھارت کو ہوم گراؤنڈ پر شکست دی۔

لیکن اس کامیابی میں بھی عمران خان کا ‘سرپرائز ایلیمنٹ’ کام آیا اور وہ یہ کہ انہوں نے ٹیم کے اوپننگ بلے باز مدثر نذر کو دسویں نمبر پر بیٹںگ کے لیے بھیجا جو ایک رن بناکرسلیم ملک کا ساتھ دینے میں کامیاب ہوئے۔

اس میچ میں کپتان نے مڈل آرڈر میں بیٹنگ کرنے والے رمیز راجہ کو اپنا پہلا ون ڈے میچ کھیلنے والے یونس احمد کے ساتھ اننگز کا آغاز کرنے کے لیےبھیجا۔ ان دونوں بلے بازوں نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 106 رنز جوڑ کر ہدف کے تعاقب کو آسان بنایا۔

رمیز راجہ اور یونس احمد نے 58، 58 رنز کی اننگز کھیلی جس کے بعد میچ کو ختم سلیم ملک نے کیا جنہوں نے اپنی اننگز کے دوران 11 چوکے اور ایک چھکا مارا۔

5۔ جب نیوٹرل امپائرز متعارف کرائے

کرکٹ کی تاریخ میں بہت کم ایساہوا کہ کسی کپتان کی تجویز کو کرکٹ کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے سراہتے ہوئے اپنایا۔دورِ حاضر کی کرکٹ میں نیوٹرل امپائرز کا سہرا عمران خان کے سر جاتا ہے۔

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان 1986 میں ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں عمران خان نے کرکٹ کی دنیا کو اس وقت سرپرائز کیا جب انہوں نے ہوم سیریز میں پاکستانی امپائرز استعمال کرنے کے بجائے سرحد پار بھارت سے کرکٹ امپائرز پلو رپورٹر اور وی کے راماسومی سے امپائرنگ کرائی۔

ان کا مقصد ہوم سیریز میں کامیابی سے ‘مقامی امپائرز کی مدد کے عنصر’ کو ختم کرنا تھا۔ یاد رہے کہ اسی اور نوے کی دہائی میں مقامی امپائرز پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں ان کے بعض فیصلوں میں جھکاؤ اس ٹیم کی طرف ہے جس ملک سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔

پاکستان کے خلاف سیریز میں ویسٹ انڈیز کے کپتان ویو رچرڈز نے نیوٹرل امپائرز کے فیصلے کو سراہا۔ بعدازاں آئی سی سی کو یہ تجویز اس قدر پسند آئی کہ آگے جاکراسے مستقل طورپر اپنا لیا گیا۔

6۔ جب بھارتی کپتان کو آؤٹ ہونے کے باوجود واپس بلا کر دوبارہ آؤٹ کیا

سن 1989 میں پاکستانی کپتان عمران خان نے امپائر کے فیصلے کے باوجود ایک ایسا کام کیا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں وقار یونس نے بھارتی کپتان کرشنماچاری سری کانتھ کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کیا لیکن بلے باز نے امپائر کو ایسے اشارہ دیا جیسے گیند ان کے بلے پر لگی۔

بھارتی کپتان کرشنماچاری سری کانتھ
بھارتی کپتان کرشنماچاری سری کانتھ

امپائر کے آؤٹ دیے جانے کے بعد بھارتی کپتان باؤنڈری کی طرف جاہی رہے تھے کہ ان کے پاکستانی ہم منصب عمران خان نے انہیں واپس بلا کر دوبارہ بلے بازی کا موقع دیا۔ شاید قسمت کو بھارتی کھلاڑی کی ادا زیادہ پسند نہیں آئی کیوں کہ اگلی ہی گیند پر وہ ایک مرتبہ پھر آؤٹ ہوکر واپس پویلین لوٹ گئے۔

7۔ ایسے بلے بازوں سے بالنگ کرائی گئی جنہیں خود اندازہ نہیں تھا کہ وہ بالر ہیں

پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں شعیب محمد، سلیم ملک، اعجاز احمد اور انضام الحق کو ان کی بیٹنگ کی وجہ سے لوگ جانتے ہیں۔ لیکن عمران خان وہ پہلے کپتان تھے جنہوں نے ان بلے بازوں کے بازؤوں میں چھپا بالنگ ٹیلنٹ دیکھا اور اسے استعمال بھی کیا۔

شعیب محمد کی آف اسپن، سلیم ملک کی میڈیم پیس اور اعجاز احمد کی لیفٹ آرم میڈیم بالنگ کو پاکستانی کپتان نے کئی میچز میں استعمال کیا اور کامیابیاں بھی سمیٹیں۔1992 کے ورلڈ کپ میں جب وقار یونس کی غیر موجودگی میں پاکستان ٹیم کا ایک بالر کم ہوا تو عمران خان نے اعجاز احمد کو بطور آل راؤنڈر کھلا کر ایک بالر کی کمی پوری کی۔

یہی نہیں، انضمام الحق نے اپنے کریئر کی پہلی ہی گیند پر ویسٹ انڈیز کے برائن لارا کو آؤٹ کیا تو اس وقت بھی کپتان عمران خان ہی تھے۔وہ الگ بات ہےکہ بعد میں انضمام کے بالنگ ایکشن پر سوال اٹھنے کی وجہ سے انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔

8۔ورلڈ کپ کے فائنل میں نمبر تین پر بیٹنگ

اور آخر میں بات عمران خان کے کریئر کے اس اہم میچ کی جس میں انہوں نے شاندار آل راؤنڈر کارکردگی دکھائی۔ 1992 کا ورلڈ کپ 39 سالہ عمران خان اپنے کریئر کا پانچواں ورلڈ کپ کھیل رہے تھے۔

عمران خان انگلینڈ کے خلاف فائنل میچ میں نمبر تین پر اس وقت بیٹنگ کرنے آئے جب گرین شرٹس مشکلات کا شکار تھے۔ انہوں نے 72 رنز کی اننگز میں پہلے محتاط اور پھر جارحانہ اندازمیں بلے بازی کی۔کپتان نے ٹیم کا اسکور چھ وکٹ پر 249 رنز تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بالنگ کا وقت آیا تو عمران خان نے سب سے اہم آخری اوور کرنے کا فیصلہ کیا اور جب رمیز راجہ نے ان کی گیند پر رچرڈ انگلورتھ کا کیچ پکڑا تو ساری دنیا نے یہ منظر دیکھا۔

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔