فلمیں

’گائے گی دنیا گیت میرے‘: ملکۂ ترنم نور جہاں کے فلمی گیت، ہر نغمہ ایک کہانی

Written by Omair Alavi

کراچی — 

برصغیر پاک و ہند کی فلمی تاریخ میں جو مقام میڈم نورجہاں نے حاصل کیا وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ اپنے فنی سفر کے 50 برسوں میں نور جہاں نے اپنے دور کے کم و بیش سبھی نامور موسیقاروں کی فلمی دھنوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور آج بھی ان کے گائے ہوئے نغمے کئی دلوں کی دھڑکن ہیں۔

فلم ‘گل بکاؤلی’ سے 1939 میں اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والی بے بی نورجہاں تین سال بعد فلم ‘خاندان’ میں ہیروئن کے روپ میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے نور جہاں اپنے وقت کی ٹاپ اداکارہ کے ساتھ ساتھ گلوکارہ بھی بن گئیں۔ 1940 اور 1950 کی دہائی میں انہوں نے بطور ہیروئن اور گلوکارہ کئی فلموں میں کام کیا لیکن 1960 کے بعد سے انہوں نے پس پردہ گائیکی کا سفر شروع کیا جس میں ان کی منفرد آواز ہی ان کی سب سے بڑی شناخت بنی۔

نور جہاں ایک ایسی پلے بیک سنگر بن کر سامنے آئیں جنہوں نے پہلے اردو اور پھر پنجابی فلموں میں اپنی گائیکی کے فن کی دھاک بٹھا دی۔ 1960 اور 1970 کی دہائی میں اگر اردو فلموں کے نغمات میں نور جہاں کا کوئی مقابل نہیں تھا تو 1980 اور 1990 میں پنجابی فلمی دنیا میں صرف ہر سو انہی کے گائے ہوئے گیتوں کے سر بکھرے تھے۔

ان دونوں زبانوں کی فلموں میں انہوں نے ایک کے بعد ایک مقبول عام گیت گایا اور ان گیتوں کی شہرت ان کے انتقال کے 21 سال بعد بھی برقرار ہے۔

موسیقار نوشاد سے لے کر فیروز نظامی تک، خواجہ خورشید انور سے نثار بزمی تک، نذیر علی سے لے کر سلیم اقبال تک، اور رشید عطرے سے لے کر ان کے بیٹے وجاہت عطرے تک، نورجہاں نے ہر دور میں ہر موسیقار کے لیے لازوال گیت گائے۔

ملکہ ترنم کی یاد میں ایسے ہی چند فلمی نغمات پر نظر ڈالتے ہیں جن کی مقبولیت وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے۔

جواں ہے محبت (انمول گھڑی، 1946)

قیامِ پاکستان سے ایک سال قبل ریلیز ہونے والی یہ فلم آگے جاکر ‘مدر انڈیا’ جیسی مایہ ناز فلم بنانے والے ہدایت کار محبوب خان نے بنائی تھی۔ اس کے گیت موسیقار نوشاد نے ترتیب دیے تھے۔ 75 سال قبل ریلیز ہونے والے اس گیت کو میڈم نورجہاں نے گایا تھا اور یہ انہی پر فلمایا گیا۔ اس گیت میں نور جہاں کی آواز اور اداؤں نے اپنے دیکھنے سننے والوں پر جو سحر طاری کیا تھا وہ آج بھی برقرار ہے۔

یہ گیت جس زمانے میں ریلیز ہوا اس وقت پیانو بجاتے ہوئے گانا نیا نیا فیشن میں آیا تھا، لیکن میڈم کی آواز اور شخصیت نے اس میں ایسا رنگ بھرا کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ گانا مزید مقبول ہوتا گیا۔

آج بھی اگر بھارت کی فلم انڈسٹری کے بہترین گانوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں 1940 کے مقبول گانوں میں ‘جواں ہے محبت’ کو ضرور جگہ ملے گی۔

یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے(جگنو، 1947)

ویسے تو میڈم نور جہاں اپنا فلمی کریئر پاکستان بننے سے پہلے شروع کرچکی تھیں۔ اس دور میں بننے والی ان کی فلموں میں ‘جگنو’ کئی وجوہ سے آج بھی دوسری فلموں کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے۔ ایک تو یہ نئے اداکار دلیپ کمار کی پہلی کامیاب فلم تھی۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اسی فلم میں لیجنڈ گلوکار محمد رفیع نے اپنا پہلا گیت گایا تھا۔

اس فلم کی ہدایت کار نورجہاں کے شوہر شوکت حسین رضوی تھے جبکہ متحدہ ہندوستان میں فیروز نظامی کی یہ آخری آخری فلموں میں سے ایک تھی۔ اس کے بعد دونوں نے پاکستان آکر نئے ملک میں فلم انڈسٹری کی بنیاد رکھی، اور پنجابی فلم ‘چن وے ‘ فلم میں ایک بار پھر یکجا ہوئے۔

نورجہاں نے ‘جگنو’ میں پانچ گانے گائے جو تمام کے تمام مقبول ہوئے، لیکن ’بدلہ وفا کا‘ وہ گیت ہے کہ گزرتے ماہ و سال بھی اس کی مقبولیت کو ماند نہیں کرسکا۔

چاندنی راتیں (دوپٹہ، 1952)

قیامِ پاکستان کے بعد میڈم نورجہاں اور ان کے شوہر سید شوکت حسین رضوی پاکستان تو آگئے لیکن یہاں سنیما انڈسٹری اور اسٹوڈیوز کی کمی کی وجہ سے آغاز میں انہیں کچھ سال انتظار کرنا پڑا۔

پاکستان آنے کے بعد جب میڈم نے اپنی پہلی اردو فلم میں اداکاری و گلوکاری کی تو شائقین نے اسے بے حد پسند کیا۔ ہدایت کار سبطین فضلی کی ‘دوپٹہ’ میں انہوں نے ‘جگنو’ کے کمپوزر فیروز نظامی کے ساتھ ایک مرتبہ پھر کام کیا، بلکہ ایک ایسا یادگار نغمہ گایا جو دہائیوں بھی دلوں کے تار چھیڑتا ہے۔

مہکی فضائیں (کوئل، 1959)

ہیروئن کے کردار میں میڈم نور جہاں کی آخری فلم 1961 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس سے قبل انہوں نے 1959 میں مسعود پرویز کی فلم ’کوئل‘ میں نہ صرف کام کیا،بلکہ اپنی مدھر آواز کا ایسا جادو جگایا کہ اس فلم کے سبھی گیت امر ہوگئے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب آواز ملکۂ ترنم نور جہاں اور دھنیں عہد ساز موسیقار خواجہ خورشید انور کی ترتیب دی ہوئی ہوں۔ سر و سنگیت کا یہ خوب صورت امتزاج اس فلم کی کامیابی کی ضمانت بنا۔

اس فلم کے گیت ’مہکی فضائیں‘ میں میڈم کی آواز اور رقص کا ایک منفرد انداز سامنے آیا۔

اس فلم کی خاص بات اس کا ساؤنڈ ٹریک تھا جس میں نورجہاں کے ساتھ ساتھ زبیدہ خانم، منیر حسین، استاد فتح علی خان، نجمہ اور ناہید نیازی بھی شامل تھیں۔

فلم کے دیگر مقبول گانوں میں ‘رم جھم رم جھم پڑے پھوار’ اور ‘دل کا دیا جلایا’ بھی قابل ذکر ہیں۔

مجھ سے پہلی سی محبت (قیدی، 1962)

پاکستان بننے کے بعد فیض احمد فیض اردو شاعری کی ایک نئی اور توانا آواز بن کر سامنے آئے اور رفتہ رفتہ ان کی مقبولیت پاکستان کی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل رہی تھی۔ ہدایت کار نجم نقوی 1962 میں اداکارہ شمیم آرا کو لے کر فلم ‘قیدی ‘بنارہے تھے تو فلم کے موسیقار رشید عطرے کے ساتھ مل کر انہوں نے فیض ہی کی ایک ایسی نظم کا انتخاب کیا جو نور جہاں کو بھی پسند تھی۔

یہ فیض کا وہی کلام ہے جسے فلم میں شامل کرنے سے کئی سال پہلے 1957 میں مارشل لا حکومت نے میڈم نورجہاں کو ایک امدادی ایونٹ پر گانے سے منع کردیا تھا۔

اس کے بعد نور جہاں نے تقریب سے جانے کی دھکمی دی تھی اور حکام بالا نے انہیں بغیر کسی روک ٹوک کے یہ کلام گانے دیا تھا۔

بعد میں خود فیض احمد فیض نے میڈم سے ملاقات کرکے یہ کلام گانے پر ان کا شکریہ ادا کیا تھا اور بعد میں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ان کی اس تخلیق کو نور جہاں سے بہتر کوئی نہیں گا سکتا تھا۔

گائے گی دنیا گیت میرے (موسیقار، 1962)

جب بھی ملکہ ترنم نورجہاں کے یادگار گیتوں کی فہرست مرتب کی جائے گی تو اس میں رشید عطرے کا ترتیب دیا گیا نغمہ سرِ فہرست ہوگا۔ ہدایت کار قدیر غوری کی فلم ‘موسیقار’ میں جس طرح میڈم نورجہاں نے اسے گایا اور صبیحہ خانم نے اس پر جس طرح پر فارم کیا، اس نے اسے یادگار بنادیا۔

آج بھی نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے میڈم نورجہاں اپنے مداحوں سے مخاطب ہوکر انہیں بتارہی ہیں کہ انہیں تو بہت پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ساری دنیا ان کے گیتوں کی دیوانی ہوگی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ گیت گائیگی میں نور جہاں کے عروج کی پیش گوئی تھی جو درست بھی ثابت ہوئی۔

ہو تمنا اور کیا (ایسا بھی ہوتا ہے، 1965)

مشہور موسیقار نثار بزمی 1965 سے قبل بھارت میں فلموں کی موسیقی ترتیب دیتے تھے اور ان کے معاونین میں معروف موسیقار لکشی کانت پیارے لال شامل تھے۔

نثار بزمی نے جب پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا سوچا تو اس وقت ان کی لگ بھگ 30 فلمیں بھارت میں ریلیز ہوچکی تھی۔ پاکستان میں انہوں نے پہلی فلم فضل کریم فضلی کے ساتھ بنائی اور آج بھی وہ فلم نورجہاں کے سدا بہار گیت ‘ہوتمنا اور کیا’ کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔

اس فلم کے ہیرو سید کمال اور ہیروئن زیبا بیگم تھیں۔ اس میں معروف گلوکار احمد رشدی کے چھ گانے تھے، لیکن مسرور انور کا لکھا ہوایہ گیت نورجہاں کی آواز میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔

چلو اچھا ہوا تم بھول گئے ( لاکھوں میں ایک، 1967)

بہت کم لوگوں کو یہ جانتے ہوں گے کہ 1967 میں بننے والی یہ فلم ہندو مسلم رومانس پر بنائی گئی تھی جس سے ملتی جلتی فلم آگے جا کر راج کپور نے ‘حنا’ کے نام سے بنائی۔ یہ بات جاننے والے اس سے بھی کم ہوں گے کہ اس فلم کا مقبول گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ شاعر فیاض ہاشمی نے لکھا تھا لیکن اس کے ابتدائی بول خود موسیقار نثار بزمی نے تجویز کیے تھے۔

ہدایت کار رضا میر کی اس فلم کے گانے بے انتہا مقبول ہوئے۔ خاص طور پر نور جہاں کا یہ گیت آج بھی غم زدہ دلوں کا ترانہ ہے۔

اس کے بول اتنے آسان ہیں کہ بے خیالی میں بھی دماغ میں آجاتے ہیں اور ان لفظوں میں نور جہاں کی آواز ایک اداس دیے کی طرح آج بھی جھلملاتی ہے۔

بڑی عمر ہے تمہاری (بے وفا، 1970)

ساٹھ کی دہائی کے آخر میں جہاں گلوکارہ مالا بیگم اور نسیم بیگم کافی مقبول ہورہی تھیں، وہیں رونا لیلیٰ کی انٹری نے موسیقاروں کو کئی مدھر آوازیں دے دی تھی۔

اس دور میں موسیقار نثار بزمی کا کمپوز کیا ہوا یہ گیت میڈم نورجہاں نے گایا اور ایک بار پھر ثابت ہوا کہ ملکۂ ترنم نورجہاں ہی رہیں گی۔

سن 1970 میں ایس سلیمان کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم کے تمام گانے مقبول ہوئے لیکن پیانو کے سامنے بیٹھی شمیم آرا پر فلمائے گئے اس گیت کا رنگ ہی الگ تھا۔

سن ونجلی دی مٹھڑی (ہیر رانجھا، 1970)

ویسے تو ہیر رانجھا کی رومانوی داستان پر پاکستان اور بھارت میں کئی فلمیں بنی ہیں لیکن ہیر کے کردار میں فردوس پر نورجہاں کی آواز اور ساتھ میں خواجہ خورشید انور کی ترتیب دی ہوئی موسیقی ایسا امتزاج ہے جس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔

ہدایت کار مسعود پرویز کی اس فلم کو رانجھا کا کردار ادا کرنے والے اعجاز درانی نے پروڈیوس کیا تھا۔ اداکار اعجاز اس وقت نورجہاں کے شوہر بھی تھے۔

اس گانے میں فردوس بیگم پر جہاں ملکۂ ترنم کی آواز بہت جچی ہے اور کمپوزیشن میں بانسری کی دھن کانوں میں رس گھولتی ہے۔ وہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ گانا صرف نور جہاں کی آواز کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔

سیونی میرا ماہی (مستانہ ماہی، 1971)

فلم ’مستانہ ماہی‘ 1971 میں ریلیز ہوئی۔ اس سے قبل لوگ وحید مراد کو اردو فلموں کا چاکلیٹی ہیرو کہتے تھے لیکن انہوں نے اس فلم کو پروڈیوس کرکے اور اس میں مرکزی کردار ادا کرکے اپنے مداحوں کو اپنا ایک منفرد روپ دکھایا۔

اس دور کی ہر بڑی فلم کی طرح ‘مستانہ ماہی’ میں بھی نور جہاں کا گانا لازمی تھا، لیکن ‘سیونی میرا ماہی’ اتنا مقبول ہوگا اس کا تو شاید ہدایت کار افتخار خان اور کمپوزر نذیر علی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔

یہ گیت اپنی شاعری، موسیقی اور نور جہاں کی آواز کے ساتھ ساتھ وحید مراد اور اداکارہ عالیہ کی جوڑی کی وجہ سے بھی دیکھنے اور سننے والوں کو بہت بھایا۔

سانوں نہر والے پل (دکھ سجنا دے، 1973)

فلم ‘دکھ سجنادے’ 1973 میں ریلیز ہوئی اور اس کا گیت ’سانوں نہر والے پل تے بلا کے‘ اس وقت سے ایسا مقبول ہوا کہ اسے ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اداکارہ فردوس پر فلمائے جانے والے اس گانے میں میڈم نے جذبات اور احساسات کو جس طرح پیش کیا اسی کی وجہ سے تقریبا پچاس سال گزر جانے کے باوجود یہ گانا آج بھی نئے کا نیا ہے۔

این اے واجی کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں حبیب اور سدھیر نے مرکزی کردار ادا کئے تھے جبکہ اس گانے کی موسیقی سلیم اقبال نے ترتیب دی تھی۔

میں تے میرا دل بر جانی (سالا صاحب، 1981)

اسّی کی دہائی اردو فلموں کے زوال کا دور تھا لیکن وہیں پنجابی فلموں کی مقبولیت عروج پر تھی۔ سلطان راہی کی ایکشن فلمیں ہوں یا علی اعجاز اور ننھا کی کامیڈی فلمیں۔ پنجابی سنیما اور ان کے گیت پاکستان کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک میں بھی مقبول ہورہے تھے۔

اسی دور میں ریلیز ہونے والی فلم ‘سالا صاحب’ میں میڈم کا گایا ہوا یہ گیت ایسا مقبول ہوا کہ آج بھی میڈم کی مداحوں کی یادداشت میں محفوظ ہے۔

یہ نغمہ معروف اداکارہ ممتاز اور علی اعجاز پر خوبصورت وادیوں میں فلمایا گیا تھا۔ ہدایت کار الطاف حسین اور موسیقار وجاہت عطرے کی جوڑی اس کی خالق تھی۔

لڈی ہے جمالو پاؤ ( صاحب جی، 1983)

پاکستان میں کوئی شادی ہو یا خوشی کا موقع ‘لڈی ہے جمالو پاؤ’ اکثر ایسی تقریبات میں سنائی دیتا ہے۔ میڈم نور جہاں کا یہ گیت اپنے وقت میں تو مقبول ہوا ان کے بعد بھی یہ گانا کئی مرتبہ گایا گیا۔ 1983 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘صاحب جی’ کا یہ گیت وجاہت عطرے نے کمپوز کیا، جبکہ یہ فلم اسٹار انجمن پر فلمایا گیا۔

الطاف حسین نے اس فلم کی ہدایت کاری دی جس میں مرکزی ہیرو کا کردار علی اعجاز نے ادا کیا تھا اور انجمن ان کی ہیروئن تھیں۔ یہ فلم اپنی ریلیز کے وقت کامیاب رہی تھی لیکن میڈم نورجہاں کا گایا ہوا یہ گیت آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ جس شوخ و چنچل انداز میں انہوں نے یہ گیت گایا، اس کی تقلید آنے والے کئی گلوکاروں نے کی، لیکن میڈم کی برابری کوئی نہ کرسکا۔

منڈیا، دوپٹہ چھڈ میرا ( مکھڑا، 1988)

گزرتے وقت کے ساتھ میڈم نور جہاں کے گائے ہوئے گیتوں کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ 1988 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مکھڑا‘ میں انہوں نے فلم کے ہیرو، پروڈیوسر اور مایہ ناز اداکار ندیم بیگ کے ساتھ گانا گایا جو بے حد مقبول ہوا۔

اقبال کشمیری اس فلم کے ہدایت کار تھے۔ یہ گانا بھی وجاہت عطرے نے ہی کمپوز کیا تھا۔ وجاہت عطرے نے 1980 کی دہائی میں میڈم کے کئی یادگار گانوں کی موسیقی دی تھی۔

تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی بابرا شریف اور ندیم بیگ کی معروف جوڑی پر فلمائے گئے اس گانے کے بول تازہ ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کوک اسٹوڈیو میں اس گانے کو دوبارہ پیش کیا گیا تھا۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔