کراچی —
پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ دیکھیں تو بڑے بڑے ڈرامے ملیں گے۔ حسینہ معین کے شاہ کار فیملی ڈرامے ہوں یا منو بھائی کی لکھی کہانیاں، اشفاق احمد کے افسانے ہوں یا انور مقصود کے چبھتے قلم سے نکلے شاہ کار، لیکن ڈراموں کی دنیا میں جو مقام پی ٹی وی کے معروف کھیل ‘وارث’ کو حاصل ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔
امجد اسلام امجد کا لکھا ہوا یہ کھیل کسی انگلش کلاسک ناول سے کم نہیں تھا۔ اس میں جہاں رومانس تھا، وہیں ڈرامہ بھی تھا اور جہاں ایکشن تھا وہیں تجسس بھی۔ کہانی میں نہ تو کوئی جھول تھا اور نہ ہی ہدایت کاری میں کمی۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ڈرامے نے پاکستان میں ڈرامے کی صنعت کو بلندی تک پہنچانے میں جو کردار ادا کیا وہ اس سے پہلے کسی ڈرامے نے نہیں کیا تھا۔
‘وارث’ کا مقابلہ اس وقت کی کسی بھی پاکستانی اور بھارتی فلم سے کیا جا سکتا تھا۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اس کی کہانی ٹی وی سے زیادہ فلم کے لیے موزوں تھی۔
1980 میں پی ٹی وی سے نشر ہونے والے یہ ڈرامہ چار دہائیوں بعد بھی لوگوں کو یاد ہے اور گاہے بگاہے اس کا حوالہ سننے کو ملتا ہے۔
ڈرامے کا مرکزی کردار مرحوم اداکار عابد علی نے ادا کیا تھا۔ دیگر اداکاروں میں منور سعید، شجاعت ہاشمی، ثمینہ احمد، اورنگزیب لغاری، عظمیٰ گیلانی، فردوس جمال، غیوراختر، سجاد کشور، آغا سکندر اور نگہت بٹ شامل تھے۔
‘وارث’ میں جس کردار نے سب سے زیادہ جان ڈالی وہ چودھری حشمت کا تھا جسے مرحوم محبوب عالم نے ادا کیا۔ جس وقت انہوں نے ایک بڑی عمر کے زمین دار کا کردار ادا کیا تھا، اس وقت ان کی اپنی عمر صرف 32 سال تھی۔ لیکن دیکھنے والے آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ محبوب عالم نے اداکاری کا آغاز بڑھاپے میں کیا۔
‘وارث’ کی کہانی ایک ظالم زمین دار چودھری حشمت (محبوب عالم) کے گرد گھومتی ہے۔ اس کی جائیداد کے کئی وارث تھے جن میں بیٹا یعقوب (منور سعید)، دو پوتے نیاز علی (اورنگزیب لغاری) اور انور علی (فردوس جمال) کے ساتھ ساتھ بڑے بیٹے کی پراسرار شادی سے ہونے والا پوتا فرخ (آغا سکندر) شامل تھے۔
دوسری جانب دلاور (عابد علی) اپنے بھائی کے قاتل فتح شیر کی تلاش میں تھا جو اسی گاؤں میں آ چھپا تھا جس کا زمین دار چودھری حشمت تھا۔
ادھر حکومت نے چودھری حشمت کو جائیداد کے بدلے زمین کی پیش کش بھی کی تھی جسے اس نے رد کر دیا تھا اور ڈیم بننے کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی تھی۔
کہانی کا ایک کردار شیر محمد (سجاد کشور) تھا جو چودھری کی حویلی کے تہہ خانے میں قید تھا۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ سرکاری خزانے کا پتہ صرف حکومتی عہدیدار کو دے گا اور اسی وجہ سے کئی دہائیوں سے وہ تہہ خانے میں قید تھا۔
کیا دلاور کو اپنے بھائی کے قاتل کا پتہ چلا؟ کیا چودھری حشمت ڈیم کو روکنے میں کامیاب ہو سکا؟ کیا شیر محمد خزانے کا پتہ بتا کر اپنا نام کلیئر کر پایا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چودھری حشمت کی جائیداد کا وارث کون بنا؟ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا ڈرامہ سیریل ‘وارث’ میں۔
‘وارث’ میں ان تمام مسائل کی نشان دہی کی گئی تھی جن کا سامنا اس وقت کے پاکستانی معاشرے کو تھا۔
خواتین کی تعلیم کا مسئلہ ہو، زمین دار کے سامنے سچ بولنے کی بات ہو، آزادی کے باوجود غلامی میں زندگی گزارنے کا ذکر ہو یا پھر شہر اور دیہات کی زندگی کا موازنہ۔ ‘وارث’ نے ہر بات کی طرف نہ صرف اشارہ کیا بلکہ اپنے تئیں اس کا حل بھی پیش کیا۔
ممتاز شاعر، مصنف اور ڈرامہ ‘وارث’ کے تخلیق کار امجد اسلام امجد کا کہنا ہے کہ جب مرحوم کنور آفتاب (جنرل مینیجر پی ٹی وی لاہور اسٹیشن) نے اُنہیں یہ ڈرامہ لکھنے کا کہا تو ان کے دماغ میں ایک ایسا اسٹرکچر موجود تھا جس کی مدد سے انہوں نے ‘وارث’ کی ابتدا کی۔
اُن کے بقول جب وہ ڈرامہ لکھ رہے تھے تو انہیں اندازہ تھا کہ اپنے منفرد اسٹائل اور وزنی اسکرپٹ کی وجہ سے یہ لوگوں کو کافی پسند آئے گا۔ لیکن 40 سال بعد بھی لوگ اس کے کرداروں کی گہرائی اور مکالموں کی طاقت کو یاد رکھیں گے، اس کا اُنہیں اندازہ نہیں تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے امجد اسلام امجد کا کہنا تھا کہ ‘وارث’ اپنے زمانے کے لحاظ سے ایک منفرد ڈرامہ تھا۔ دوسرے ممالک کے لٹریچر کی طرح اس میں بھی کئی مسائل کی نشان دہی کی گئی تھی جن میں جاگیردارانہ نظام کی خرابیاں، انسانی حقوق کی پامالی، آزادیٔ رائے کی پابندی، سب کے لیے یکساں قانون نہ ہونے جیسے مسائل شامل تھے۔
امجد اسلام امجد نے ‘وارث’ سے پی ٹی وی کے لیے کئی کھیل تحریر کیے تھے لیکن یہ ان کا پہلا ٹی وی سیریل تھا۔
اُن کے بقول "میں نے اس زمانے کے لحاظ سے تمام مسائل کا ذکر کیا تھا جو ہمارے اور انگریزی لٹریچر میں موجود تو تھے، لیکن اس پر کھل کر تنقید صرف دوسری زبانوں میں ہی ہوتی تھی۔ اس لیے ‘وارث’ کے لیے میں نے ایسے کردار تخلیق کیے جو ہم سے بہت قریب تھے اور ان تمام مسائل کی عکاسی بھی کی جن سے معاشرہ دو چار تھا۔”
امجد اسلام امجد کہتے ہیں کہ یہ ڈرامہ کئی چیزوں کے گرد گھومتا ہے جس میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت سب سے آگے تھی۔ ڈرامے کے ہر کردار کی ایک کہانی تھی جس کی کڑی کہیں نہ کہیں چودھری حشمت سے ملتی تھی۔ اسی لیے ڈرامہ اس زمانے میں تو مقبول ہوا ہی، لیکن آج بھی لوگ اسے دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔
ڈرامے میں اداکار منور سعید نے محبوب عالم کے بڑے بیٹے چودھری یعقوب کا کردار ادا کیا تھا۔ ان کے بقول جب وہ وارث میں کام کر رہے تھے تو انہیں اس بات کا تو اندازہ تھا کہ ڈرامہ بہت اچھا ہے لیکن یہ اتنا مقبول ہو گا، اس کا بالکل اندازہ نہیں تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینئر اداکار کا کہنا تھا کہ شوبز کی دنیا عجیب و غریب ہے، جہاں کبھی بہت اچھی چیز لوگوں کو پسند نہیں آتی۔ لیکن ان کے بقول ‘وارث’ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا اور اس ڈرامے کو اتنی ہی پذیرائی ملی جتنا کہ اس کا حق تھا۔ ان کے بقول ڈرامے میں محبوب عالم کا کردار چھا گیا تھا لیکن پرفارمنس کے لحاظ سے فردوس جمال کی اداکاری یادگار تھی۔
جس زمانے میں ‘وارث’ نشر ہوا ان دنوں منور سعید فلموں میں زیادہ تر ولن اور ٹی وی پر مثبت کردار ادا کر رہے تھے۔ ایسے میں وارث میں ایک یادگار ولن کا کردار کرنے کے پیچھے کیا منطق تھی؟ اس بارے میں منور سعید کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کیریئر میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ کردار مثبت ہو یا منفی، بس یہ سوچا کہ کردار میں کچھ ہونا چاہیے اور اس لحاظ سے وارث ڈرامہ یادگار تھا۔
ڈرامے میں ایک اہم کردار معروف اداکارہ عظمیٰ گیلانی نے بھی ادا کیا۔ ایک طرف وہ چودھری حشمت کی وہ بہو تھیں جس کے بارے میں چودھری صاحب کو علم نہیں تھا، تو دوسری طرف وہ اس آدمی کی بیٹی تھیں جسے چودھری حشمت نے تہہ خانے میں قید کیا ہوا تھا۔
ڈرامہ جس وقت نشر ہوا اس وقت عظمیٰ گیلانی کی عمر صرف 34 برس تھی۔ لیکن انہوں نے آغا سکندر کی ماں کا کردار خوب نبھایا جو عمر میں ان سے صرف نو سال ہی چھوٹے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عظمیٰ گیلانی نے بتایا کہ ماں کا کردار ان کے لیے نیا نہیں تھا، ‘1970 میں اپنے پہلے ہی ڈرامے میں وہ قوی خان کی والدہ بنی تھیں۔
"اسی سے آپ اندازہ لگا لیں کہ بڑی عمر کا رول کرنے میں مجھے کبھی ججھک نہیں ہوئی۔ چاہے وہ ماں کا رول ہو یاکسی اور کا۔ بس رول اچھا ہونا چاہیے۔ میرا یہ ہمیشہ اصول رہا ہے کہ جو کردار کروں، اس کے بغیر ڈرامہ آگے نہیں کھسکنا چاہیے۔ کہانی میں اس کردار کی اتنی جگہ ضرور ہونی چاہیے کہ اس کے بغیر ڈرامہ آگے نہ بڑھ سکے۔”
عظمیٰ گیلانی کہتی ہیں کہ سمجھ دار آرٹسٹ کوئی بھی ڈرامہ کرتے وقت کہانی دیکھتا ہے۔ ان کے بقول "چوں کہ میں خود کو سمجھ دار اداکاروں کی فہرست میں شمار کرتی ہوں، اس لیے ہٹ اور فیل کے بارے میں سوچنا ہمارا کام نہیں اور نہ ہی ہمارا مقصد۔ میں نے وارث اس لیے کیا کیوں کہ یہ ڈرامہ میرے پسندیدہ رائٹر، شاعر اور انسان امجد اسلام امجد نے لکھا تھا۔ دوسرا یہ کہ اس کی کہانی زبردست تھی اور پہلی بار پاکستان کی ٹی وی اور فلم میں وڈیرا ازم کا پردہ چاک کیا گیا تھا۔ امجد اسلام امجد نے بہت ہی خوبصورتی سے اس ڈرامے کے ذریعے لوگوں کو بتایا کہ زمین داری کتنا خوف ناک نظام اور اس کا کیا انجام ہونا چاہیے۔”
چالیس سال گزر جانے کے باوجود بھی ڈرامے کے کچھ سین آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ ان سینز کو یاد کرتے ہوئے عظمیٰ گیلانی نے بتایا کہ دو سین ایسے تھے، جنہیں کرتے ہوئے انہیں بہت مزہ آیا۔
"ڈرامے میں ایک سین تھا جس میں میرے والد سجاد کشور کئی سال بعد چودھری حشمت کی قید سے آزاد ہوکر واپس آتے ہیں۔ ان کو چھڑانے والے عابد علی اور شجاعت ہاشمی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ چلیے، آپ کے گھر کوئی مہمان آئے ہیں۔ وہ میرے لیے بہت مشکل سین تھا کیوں کہ ہم لوگوں کے ہاں اس قسم کے واقعات ہوتے نہیں ہیں۔ اگر ہمیں سین میں اداکاری کرنی ہے کہ والد فوت ہوگئے تو اپنے والد کو یاد کر کے رولیتے ہیں۔ لیکن کچھ واقعے ایسے ہوتے ہیں جو اللہ نہ کرے کسی کو دیکھنے کو ملیں۔ یہ بھی ان میں سے ایک تھا۔ اس کو ایکٹ کرنا کافی مشکل تھا۔ پہلی ٹیک میں سین تو فائنل ہوگیا تھا لیکن اس کے بعد میں کافی دیر تک روتی رہی تھی۔ سجاد کشور صاحب نے بھی کیا عمدہ کام کیا تھا اس سین میں۔”
عظمیٰ گیلانی کے بقول دوسرا سین وہ تھا جس میں ان کے کردار کا سامنا چودھری حشمت سے ہوتا ہے۔ ان کے بقول وہ سین بھی انہیں ایک عورت کی حیثیت سے بہت اچھا لگا تھا کیوں کہ اس میں انہوں نے ایک قد آور زمین دار اور ظالم و جابر شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے جواب دیا تھا۔
ڈرامے میں اداکارہ ثمینہ احمد نے نیاز احمد (اورنگزیب لغاری) کی بیوی کا کردار ادا کیا جس نے تعلیم تو شہر میں حاصل کی تھی، لیکن گاؤں جا کر اسے اپنے سسرال کے رنگ میں ڈھلنا پڑا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ثمینہ احمد کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے ‘وارث’ میں کام کیا تھا تو انہیں قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا پاپولر ہوگا۔
منور سعید کی طرح ثمینہ احمد نے بھی فردوس جمال کے کردار کو دلچسپ قرار دیا۔ "مجھے انور علی کا کردار جسے فردوس جمال نے نبھایا تھا، بہت انٹرسٹنگ لگا تھا۔ ایک تو وہ نوجوان تھے اور اس ڈرامے سے کافی مقبول بھی ہوگئے تھے۔ اپنے کردار کے بارے میں یہی کہوں گی کہ میں نے ایک ایسی عورت کا کردار ادا کیا تھا جس نے تعلیم تو یونی ورسٹی سے حاصل کی تھی، لیکن اس کے سسرال کا ماحول یونی ورسٹی سے بہت مختلف اور طاقت ور تھا۔
ثمینہ احمد کے بقول انہیں کردار ادا کرنے میں کوئی خاص مشکل اس لیے پیش نہیں آئی تھی کیوں کہ انہین تھوڑا بہت اندازہ تھا کہ ان کا کردار کہاں اسٹینڈ کرتا ہے۔ سمجھ دار سی لڑکی، پڑھی لکھی، جو اپنے سسرال کے ماحول میں فٹ نہیں ہو پاتی۔
ان کے بقول ان کا کردار پسند کیا گیا تھا اور ان کی ان سہیلیوں نے بھی جو ویسے ڈرامے نہیں دیکھتی تھیں، ‘وارث’ کو دیکھا اور بتایا بھی کہ انہیں ڈرامے میں ان کا کام پسند آیا۔
ٹی وی ہدایت کار محسن طلعت کا شمار ان ہدایت کاروں میں ہوتا ہے جو ان نوجوانوں میں شامل ہیں جنہوں نے وارث اس وقت دیکھا جب وہ پی ٹی وی پر دوبارہ نشر ہوا تھا۔
بیس سال سے ہدایت کاری سے وابستہ محسن طلعت نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وارث جیسے ڈرامے بننا اب بہت مشکل ہے۔ ان کے بقول پہلے اداکاروں کو کردار کی مناسبت سے کاسٹ کیا جاتا تھا لیکن آج کل ایسا نہیں ہوتا۔
محسن طلعت کہتے ہیں کہ جس وقت وارث نشر کیا گیا، اس زمانے میں ڈرامے زیادہ تر خواتین دیکھا کرتی تھیں۔ وارث کی وجہ سے اس زمانے کے نوجوانوں میں بھی ڈرامے کا شعور پیدا ہوا اور میں بھی اپنے آپ کو ایک ایسا ہی خوش نصیب سمجھتا ہوں جس میں ڈرامے کا رجحان وارث جیسے ڈراموں کو دیکھ کر بڑھا۔ ‘کانٹینٹ از کنگ’ والی بات پوری طرح وارث جیسے ڈرامے پر پوری اترتی ہے۔
ان کے بقول چار دہائیوں کے بعد بھی وارث کا اسی طرح مقبول رہنا اور پسند کیا جانا اس بات کی گواہی ہے کہ اچھا کام ہمیشہ یاد رہتا ہے۔