کراچی —
سوشل میڈیا پر پاکستان انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے فن کاروں کی جانب سے ایک مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس میں اداکار و اداکارائیں ‘رائلٹی’ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس مہم کے تحت شوبز شخصیات سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ‘Give Royalties To Artists’ کا استعمال کر رہے ہیں۔
فن کاروں کی جانب سے اس مہم کا آغاز اس وقت سامنے آیا ہے جب رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان کی سینئر اداکارہ نائلہ جعفری کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔
ویڈیو میں نائلہ جعفری ٹی وی چینل اور پروڈکشن ہاؤسز کے مالکان سے اپنے ڈراموں کی رائلٹی کا تقاضا کر رہی تھیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں اداکارہ نائلہ کو اسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں اور اپنا علاج کرا رہی ہیں۔
ویڈیو میں اداکارہ نائلہ کا کہنا تھا کہ "جب انہوں نے پی ٹی وی جوائن کیا تھا تو اس وقت ان کے ڈرامے دوبارہ نشر ہونے پر انہیں رائلٹی ملتی تھی اگرچہ وہ پیسے زیادہ نہیں تھے لیکن کسی کو برے بھی نہیں لگتے تھے۔”
My dear friend and a renowned TV actor Naila Jafri has been fighting Cancer since last 6 years. The battle is very expensive. In this video she requests if the channel owners pay royalty to her previous work’s re runs it will be of great help to her. pic.twitter.com/AYc6TOTRB7
— Furqan T. Siddiqui (@furqantsiddiqui) April 4, 2021
گزشتہ چھ برسوں سے کینسر سے لڑنے والی اداکارہ کی اس بات پر آرٹسٹ کمیونٹی اکٹھا ہو گئی اور ہر کسی نے اپنی اور اپنے ساتھ کام کرنے والے فن کاروں کے لیے رائلٹی کے لیے آواز اٹھانا شروع کر دی ہے۔
رائلٹی کیا ہے؟ اور اس سے فن کاروں کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے؟
اداکار فیصل قریشی نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وہ لوگوں کو رائلٹی کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔
فیصل قریشی نے بتایا کہ ہم ڈراموں اور فلموں میں کام کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ دنیا بھر میں ‘ری رن’ (دوبارہ یا متعدد بار) نشر ہوتے ہیں لیکن فن کاروں کو صرف ایک ہی مرتبہ ادائیگی ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں بہت سے مصنف ہیں جب وہ کتاب لکھتے ہیں تو جتنی کتابیں فروخت ہوتی ہیں انہیں اس کی رائلٹیز آتی جاتی ہیں اور ایسا ہی سلسلہ اداکاروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور ہم ابھی اداکار، رائٹرز، پروڈیوسرز، ٹیکنیشیئن اور تمام لوگوں کے لیے بات کر رہے ہیں۔
ویڈیو میں فیصل قریشی کا کہنا تھا کہ "رائلٹی ایک فن کار کی پینشن ہوتی ہے، خواہ وہ اداکار ہو، رائٹر ہو یا پھر پروڈیوسر۔”
انہوں نے بتایا کہ یہ پیسہ مشکل وقتوں میں کام آتا ہے جب ان کے پاس یا تو کام نہیں ہوتا یا پھر انہیں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
فیصل قریشی کے مطابق رائلٹی کے پیسوں کے ذریعے فن کار کا مستقبل محفوظ ہوتا ہے اگر یہ وقت پر ملے تو کوئی بھی اداکار یا پروڈیوسر دوسرا کاروبار شروع کرنے کے بارے میں بھی نہ سوچے۔
فن کاروں کو رائلٹی ادا کرنے کی مہم سے متعلق فلم اور ٹی وی کی معروف اداکارہ مہوش حیات کا کہنا تھا کہ "ان کے فیورٹ ٹی وی شو ‘فرینڈز’ کے اداکاروں نے شو کے دوران جتنے پیسے کمائے، رائلٹی کی مد میں وہ اب اس سے بھی زیادہ کما رہے ہیں۔”
اداکار عمیر رانا کا کہنا تھا کہ "رائلٹی اداکاروں کا حق ہے اسے امداد نہ سمجھا جائے۔”
The one true way to save all culture related professions and have it thrive and grow as an exportable industry. Give artists their due right not charity. Give their craft respect. #GiveRoyaltiesToArtists pic.twitter.com/lkyULxiKIq
— Omair Rana (@omairana) April 18, 2021
اکارہ صنم سعید، ہمایوں سعید، سید جبران اور عمران اشرف سمیت کئی فن کاروں نے ‘گیو رائلٹی ٹو آرٹسٹس’ کے ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پوسٹس شیئر کی ہیں اور اپنے اور ساتھی فن کاروں کے لیے آواز اٹھائی ہیں۔
دوسری جانب اداکارہ ارمینہ رانا خان نے بھی ٹوئٹر پر لوگوں کو رائلٹی کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے ایک پوسٹ شیئر کی ہے۔
پاکستانی ٹی وی انڈسٹری میں مالی معاملات کا مسئلہ نیا نہیں
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی سینئر اداکار نے ٹی وی انڈسٹری کے مالی معاملات ہر آواز اٹھائی ہو۔ رواں برس اداکار و پروڈیوسر نعمان اعجاز نے ایک ویب انٹرویو میں ٹی وی چینل مالکان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اس انٹرویو میں ہدایت کار رافع راشدی سے بات کرتے ہوئے نعمان اعجاز نے انکشاف کیا تھا کہ ان سمیت پاکستان میں کوئی ایسا اداکار اور پروڈیوسر نہیں جس کا معاوضہ نہ پھنسا ہو۔
نعمان اعجاز کا دعویٰ تھا کہ ایک چینل کو ان کے ساڑھے چار سے پانچ کروڑ روپے ادا کرنا ہیں جب کہ ایک اور چینل پر ڈھائی کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔
دوسری جانب انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے اس اہم مسئلے پر پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آرٹسٹوں کو رائلٹی ملنا چاہیے لیکن مناسب قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا۔”
Most countries around the world give royalties /residuals to artists every time a show, their work is re-run, a 2nd time or more. However, sadly in Pak whr many artists are already underpaid, there is no policy or law ensuring that artists be given financial credit for their work
— Faisal Javed Khan (@FaisalJavedKhan) April 12, 2021
سینیٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس اہم مسئلے کو ایوان میں اٹھائے گی اور آرٹسٹ کمیونٹی کو اس پر جلد خوش خبری ملے گی۔
Most countries around the world give royalties /residuals to artists every time a show, their work is re-run, a 2nd time or more. However, sadly in Pak whr many artists are already underpaid, there is no policy or law ensuring that artists be given financial credit for their work
— Faisal Javed Khan (@FaisalJavedKhan) April 12, 2021
رائلٹی سے متعلق پروڈیوسرز کا کیا کہنا ہے؟
نام ظاہر نہ کرنے پر ایک پروڈیوسر نے بتایا کہ پاکستان ٹیلی ویژن اپنے زمانے میں اس لیے رائلٹی دے پاتا تھا کیوں کہ وہ سرکاری ادارہ تھا، اس کے پاس اپنا سیٹ اپ تھا اور وہ عوام سے لائسنس فیس اکٹھا کرتے تھے جب کہ فن کاروں کو معاوضہ بھی کم ہی ملتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پرائیوٹ چینل آنے کے بعد حالات مختلف ہو گئے ہیں اور فن کاروں کو اچھے پیسے ملتے ہیں۔ چینلز کا بزنس کمرشلز پر چلتا ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں موجودہ ماڈل ہی غلط ہے اسے بہتر بنانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں جہاں آرٹسٹوں کو رائلٹی ملتی ہے وہیں ناظرین کو پروگرام دیکھنے کے لیے چینل سبسکرائب کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں جہاں انٹرٹینمنٹ چینل ہی کم ہیں وہاں جب تک ایسا ماڈل نہیں آئے گا تب تک حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
‘رائلٹی کی بات وہاں اچھی لگتی ہے جہاں معاملہ برابری پر چلتا ہے’
ایک اور پروڈیوسر نے کہا کہ جس ملک میں ٹیکسوں کی بھرمار ہو، جہاں لوگوں کی نوکریاں ختم ہو رہی ہوں، جہاں حق دیر سے ملتا ہو وہاں رائلٹی کی بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں میڈیا سے وابستہ کئی افراد کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور جن کی نوکریاں بچ گئیں ان کی تنخواہیں کم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ ان مشکل حالات میں بھی فن کاروں کو ان کے معاوضے ایڈوانس میں دیے جاتے رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نہ فن کاروں کی کوئی گلڈ (تنظیم) ہے، نہ ہی ان کے کوئی وکیل ہیں، جس کی دھونس چلتی ہے اس کا کام چل جاتا ہے۔
مہوش اعجاز کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ ٹی وی کے آنے کے بعد اداکاروں کو چاہیے تھا کہ اپنے کنٹریکٹ میں ایک شق ڈلواتے جس سے ان کا مستقبل محفوظ ہوتا لیکن قانونی سمجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
ان کے بقول پاکستان میں صرف اداکار نہیں پس رہا بلکہ ڈرامہ بنانے، لکھنے اور پیسہ لگانے والے بھی پس رہے ہیں۔