کراچی — آپ نے میدانِ جنگ میں شہسواروں کے گرنے کا تو سنا ہی ہو گا۔ لیکن کسی کھیل میں کھلاڑی کے گرنے اور پھر اٹھ کر چیمپئن بننے کے بارے میں کم ہی سنا اور دیکھا ہو گا۔
رواں اولمپکس گیمز میں جب نیدرلینڈ کی ایتھلیٹ سیفان حسن 1500 میٹرز کی ہیٹس کے آغاز میں گریں تو شائقین کو ایسا لگا جیسے ان کی جیت اب ناممکن ہے لیکن پھر انہوں نے ریس جیت کر سب کو حیران کردیا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ جب کسی ایتھلیٹ کو پرفارمنس کے دوران دھچکا لگا ہو اور وہ اس کے باوجود کامیاب ہو گیا ہو۔
ایسے کئی ایتھلیٹس گزرے ہیں جنہوں نے انجری اور مشکل حالات میں بھی فتوحات اپنے نام کی ہیں۔ ایسے ہی چند کھلاڑیوں کا ذکر کرکے اولمپک گیمز کے اختتامی روز کو یاد گار بناتے ہیں۔
If you’re feeling low today, watch how Sifan Hassan tripped during the Olympics & went on to win the race. If you ever fall down, stand up, get back in the race and march on. #Inspiration pic.twitter.com/jxeZsCkCrY
— Harsh Mariwala (@hcmariwala) August 5, 2021
ناممکن کو ممکن کرنے والے ایتھلیٹس
سال 1928 کے اولمپکس میں پہلی بار خواتین کی 100 میٹر ریس متعارف کی گئی، امریکی ٹریک اسٹار بیہٹی رابنسن نے اس ایونٹ میں نہ صرف گولڈ میڈل جیتا بلکہ وہ اس ریلے ریس کا بھی حصہ تھیں جس میں انہوں نے سلور میڈل جیتا۔
البتہ 1931 میں وہ ایک طیارہ حادثے میں شدید زخمی ہو گئی تھیں، جس فرد نے بیہٹی کو جائے حادثہ پر پایا۔ وہ سمجھا کہ وہ مر چکی ہیں اور انہیں ڈاکٹر کے بجائے انڈر ٹیکر (دفنانے والے) کے پاس لے گیا۔ لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔
#otd in 1928, 16-year-old American Betty Robinson won a gold medal in the 100m and silver in the 4x100m relay at the Amsterdam Olympics, becoming the first track & field champion. After serious injury in a plane crash, she recovered and won gold again at the infamous 1936 games. pic.twitter.com/7JKp0waWTm
— On This Day She (@OnThisDayShe) July 31, 2021
وہ امریکہ میں ہونے والے 1932 کے اولمپکس میں شرکت نہ کرسکیں لیکن وہ 1936کے ایونٹ سے قبل اتنی صحتیاب ہوگئیں کہ اولمپک میں حصہ لے سکیں۔ چونکہ وہ حادثے کی وجہ سے اپنی ٹانگ نہیں موڑ سکتی تھیں۔ اس لیے صرف ریلے ریس میں شریک ہوئیں اور وہ گولڈ میڈل جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھیں۔
امریکہ کی جانب سے تین اولمپکس میں آٹھ گولڈ میڈل جیتنے والے رے یوری کو بہت لوگ جانتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ ایک وقت تھا جب وہ پولیو کی وجہ سے ویل چیئر استعمال کرتے تھے۔
Ray Ewry (BSME 1897) overcame polio to become a record-breaking #Olympics athlete, winning 8 gold medals by 1908. His combination of athletics and engineering inspired the Ray Ewry Sports Engineering Center at Purdue: https://t.co/y459mlRV8M pic.twitter.com/Rft9bbDmhg
— Purdue Mechanical Engineering (@PurdueME) July 23, 2021
ان کے لیے اسٹینڈنگ ہائی جمپ، ٹرپل جمپ اور لونگ جمپ میں کامیابی تو کیا شرکت بھی اس وقت ناممکن تھی۔ لیکن انہوں نے ناممکن کو ممکن کیا اور سب سے زیادہ گولڈ میڈل کا ریکارڈ سو سال تک اپنے پاس رکھا۔
سن 1956 کے اولمپک گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے والے امریکی ڈسکس تھرور ایل اورٹر کامیابی کے ایک سال بعد ہی ایک کار حادثے میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ لیکن انہوں نے پھر بھی چیمپئن بننے کی جستجو نہیں چھوڑی اور اگلے تین اولمپکس میں طلائی تمغے جیتے۔
سیاہ فام امریکی ٹریک اسٹار ولما روڈولف کی زندگی کا آغاز ہی امتحان سے ہوا اور انہیں بچپن میں ہی نمونیا، اسکارلیٹ فیور اور پولیو جیسی بیماریاں ہوئیں۔ جس کی وجہ سے ان کا دوڑنا تو کیا چلنا بھی مشکل ہو گیا۔
لیکن ولما نے ہمت نہیں ہاری انہوں نے اپنے گھر والوں اور ڈاکٹروں کی مدد سے پہلے چلنا سیکھا اور پھر دوڑنا جس کے بعد وہ ایسا دوڑیں کہ 1960 کے اولمپک گیمز میں 100 میٹر، 200 میٹر اور ریلے ریس میں گولڈ میڈل جیتا۔
Wilma Rudolph– the first American woman to win 3 gold medals in the #Olympics— met JFK in the Oval Office in April 1961. #ArchivesAthletes pic.twitter.com/Lh6NqqG6dk
— JFK Library (@JFKLibrary) August 6, 2021
ایک اور سیاہ فام ایتھلیٹ جنہوں نے بیماری کو شکست دے کر اولمپک گولڈ جیتا۔ ان کا نام گیل ڈیہوز تھا۔ 1988 کے اولمپکس سے قبل وہ گرویز ڈیزیز کا شکار ہو گئیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی نظر متاثر ہوئی بلکہ وزن بھی، سر درد اور مسل پُل ہو جانے کی وجہ سے وہ ایونٹ میں شرکت نہ کر سکیں۔
انہوں نے اس بیماری کا علاج تو کرایا لیکن اس کے بعد انہیں بھاگنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ گیل نے ہمت نہیں ہاری اور 1992 کے اولمپک گیمز میں 100 میٹر ریس میں سونے کا تمغہ جیتا۔ ان کی قریب ترین حریف ان سے صرف 0 اعشاریہ پانچ سیکنڈز دور رہیں جس کے بعد فاتح کا فیصلہ ری پلے دیکھ کر کیا گیا۔
زخمی ہونے کے باوجود فاتحانہ پرفارمنس دینے والے کھلاڑی
1976 کے اولمپک گیمز میں جہاں کئی ایتھلیٹس نے میڈلز جیتے وہاں جاپان کے شون فُوجی موٹو کا کارنامہ اب بھی کئی لوگوں کو یاد ہے۔
آرٹسٹک جمانسٹک ٹیم ایونٹ کے دوران وہ گھٹنے کی انجری کا شکار ہوگئے تھے لیکن فُوجی موٹو نے اس درد اور تکلیف کے باوجود پہلے پومل ہارس ایونٹ میں نو اعشاریہ پانچ پوائنٹس اسکور کیے اور پھر رنگز ایونٹ میں نو اعشاریہ سات کی بہترین کارکردگی دکھاکر سب کو حیران کردیا۔ ان کی اس کوشش کے باعث ان کی ٹیم کو ایونٹ میں گولڈ میڈل ملا۔
"I must try to forget the pain”, Shun Fujimoto. @gymnastics pic.twitter.com/5awJKGPEE9
— Olympics (@Olympics) April 18, 2017
امریکی جمناسٹک کیری اسٹرگ کو 1996 کے اٹلانٹا اولمپکس کی جمناسٹک ٹیم کا سب سے کمزور حصہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اسی ایتھلیٹ نے امریکہ کو گولڈ میڈل جتوانے کے لیے جو کیا اس کی مثال نہیں۔
مقابلے کے دوران پہلی ہی باری میں ان کا ٹخنہ زخمی ہوگیا جس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی دوسری باری مکمل کرنی تھی تاکہ امریکی ٹیم کو طلائی تمغہ مل سکے۔ انہوں نے زخمی ٹخنے کے ساتھ ہی باری مکمل کی اور نو اعشاریہ 712 اسکور کیا اور ٹیم کو کامیابی دلائی۔
انہیں لینڈنگ پلیٹ فارم سے میڈل پوڈیم تک ان کے کوچ گود میں اٹھا کر لے گئے۔
Kerri Strug fought through the pain of an ankle injury to compete at the 1996 Olympic Games, but was it necessary? https://t.co/myV97KL9JT
— snopes.com (@snopes) August 1, 2021
اسی اولمپکس میں شرکت کرنے والے امریکی فری اسٹائل ریسلر کرٹ اینگل کی زندگی بھی عجیب تھی، بچپن میں باپ کا انتقال ایک حادثے میں ہوا تو کوچ کو اٹلانٹا اولمپک گیمز سے قتل کر دیا گیا اور جب اولمپک ٹرائلز کے لیے ان کا انتخاب ہونا تھا، تو وہ گردن کی انجری کا شکار ہو گئے۔
البتہ اس سب کے باوجود انہوں نے ہمت نہ ہاری اور پہلے ٹرائلز جیت کر اولمپک گیمز میں جگہ بنائی پھر پانچ ماہ آرام کرنے کے بعد انہوں نے اولمپکس میں حصہ لیا۔
25 years ago, WWE legend Kurt Angle won Olympic gold with a BROKEN NECK 👏 pic.twitter.com/QKPvQFGp8e
— SportsCenter (@SportsCenter) July 31, 2021
انہوں نے درد سے نجات کے انجکشن لگا کر ایونٹ میں شرکت کی۔ اس سب کے باوجود انہوں نے امریکہ کے لیے اولمپک میں گولڈ میڈل جیتا جس کے بعد وہ پروفیشنل ریسلر بن گئے۔
کوئی گیم چھوڑ کر واپس آیا تو کسی کو دوسرا موقع ملا
امریکی ایتھلیٹ جارج آئیزر نے جب 1904 کے اولمپک گیمز میں شرکت کی تو ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کوئی میڈل جیتیں گے، کیوں کہ وہ دیگر ایتھلیٹس سے مختلف تھے۔
ان کی بائیں ٹانگ ایک ٹرین حادثے میں ضائع ہو گئی تھی اور وہ لکڑی کی ٹانگ کے بل پر چلتے پھرتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے ایونٹ میں تین گولڈ سمیت چھ میڈلز جیتے جو کہ ایک ریکارڈ تھا۔
The incredible story of George Eyser. #TBT @gymnastics @TeamUSA pic.twitter.com/IBnBtYzs0J
— Olympics (@Olympics) June 27, 2019
سن 1940 اور 1944 میں اولمپک گیمز دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے نہیں ہو سکے تھے۔ البتہ 1936 میں نیدرلینڈ کی جانب سے اولمپک شرکت کرنے والی فینی کوئن جن کی شادی ہو گئی تھی اور وہ فینی بلنکز کوئن بن کر گھریلو زندگی میں مصروف ہو گئی تھیں نے 1948 کے اولمپکس گیمز میں شرکت کی۔
انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے 100 میٹر ریس، 80 میٹر ہرڈلز، 200 میٹر ریس اور ریلے ریس چاروں میں گولڈ میڈل جیتا۔
Guys, I need names of female athletes who changed sports history, have made an impact and/or were pioneers. Please!
— Marina Amaral (@marinamaral2) September 3, 2020
Non-American options are also welcome.
سن 1956 میں 100 میٹر فری اسٹائل میں اولمپک ریکارڈ قائم کرنے والی آسٹریلوی سومر ڈان فریز کو اکثر اپنی ٹیم تو کبھی اولمپکس اسپانسرز سے مسئلہ رہتا تھا۔
سن 1963 میں وہ ایک خوفناک کار حادثے کا شکار ہو گئی، اس واقعے میں ان کی والدہ ہلاک اور بہن زخمی ہو گئی تھیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اولمپک میں حصہ لیا اور ایک ہی ایونٹ میں مسلسل تین میڈلز جیتنے والی پہلی سوئمر بنیں۔
Dawn Fraser arrived in Tokyo for the 1964 Games a lost 27-year-old dealing with severe pain and tragedy. Weeks later she left Japan as a record-breaker and, perhaps more importantly, with a renewed faith in humanity.#StrongerTogether
— Olympics (@Olympics) October 24, 2020
کچھ ایتھلیٹس ساری زندگی محنت کر کے نام بناتے ہیں اور پھر ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ لیکن امریکی سوئمر ڈارا ٹورز کو ریٹائرمنٹ سے ہی نفرت تھی۔ انہوں نے 1984، 1988 اور 1992 کے اولمپکس میں امریکہ کے لیے متعد کامیابیاں سمیٹیں۔ انہوں نے ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ کم بیک کیا اور دونوں مرتبہ ہی تمغے جیتے۔
اپنے کریئر کے دوران 12 میڈلز جیتنے والی اس سوئمر نے پہلے 2000 اولمپکس میں 33 سال کی عمر میں حصہ لیا اور پھر 41 برس کی عمر میں 2008 اولمپک گیمز میں امریکہ کی نمائندگی کی۔
سن 1984 کے اولمپک گیمز میں انہوں نے فری اسٹائل ریلے میں اپنا پہلا گولڈ میڈل جیتا، چار سال بعد انہوں نے ایک سلور اور ایک برانز میڈل اپنے نام کیا جب کہ 1992 میں فری اسٹائل ریلے میں ایک اور گولڈ جیت کر کھیل سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
#tbt. What’s an athlete without a habit or superstition? Mine was rubbing my hands and forearms on the sandpaper like starting blocks b4 my races. What’s your superstition? (doesn’t have to be athletic related) pic.twitter.com/kvG3KpSo1M
— Dara Torres (@DaraTorres) June 4, 2021
بعد ازاں آٹھ سال بعد انہوں نے دوبارہ اولمپک گیمز میں شرکت کی اور 33 سال کی عمر میں دو گولڈ اور تین برانز میڈل جیت کر سب کو حیران کردیا۔ یہی نہیں، 41 سالہ ڈارا ٹورز کی میڈل جیتنے کی جستجو ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اور انہوں نے بیجنگ اولپکس میں تین سلور میڈل اپنے نام کیے۔ اس طرح وہ مجموعی طور پر 12 میڈلز جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔
علاوہ ازیں 1992 کے اولمپکس میں روس کی یونی فائیڈ ٹیم کے پرچم تلے چھ طلائی تمغے جیتنے والے جمناسٹ وٹالی شربو نے چار سال بعد بیلاروس کی جانب سے اولمپکس میں شرکت کی ٹھانی۔ لیکن اولمپکس سے چند ماہ قبل ان کی اہلیہ کار حادثے میں شدید زخمی ہوکر کوما میں چلی گئیں۔
Looking back on an impressive 6 (!) Olympic titles at the 1992 Barcelona Olympics as Vitaly Scherbo 🇧🇾 celebrates his birthday today!#artistic #gymnastics pic.twitter.com/7R5PSg5wCy
— European Gymnastics (@UEGymnastics) January 13, 2020
ڈاکٹرز کے مطابق ان کی اہلیہ کا بچ جانا معجزہ ہو گا اور اسی انتظار میں گولڈ میڈلیسٹ ایتھلیٹ سب کچھ چھوڑ کر بیوی کے پاس بیٹھے رہے، نہ صرف انہوں نے 15 پاؤنڈ وزن بڑھا لیا بلکہ پریکٹس بھی چھوڑ دی۔
اپنی اہلیہ کی صحت یابی کے انتظار میں انہوں نے اولمپکس کے لیے پریکٹس کرنا چھوڑ دی جس کے باعث ان کا وزن 15 پاؤنڈ بڑھ گیا۔ بعد ازاں ایک ماہ بعد ان کی اہلیہ کوما سے باہر آئی اور شربو نے بغیر پریکٹس کے اولمپکس میں حصہ لیا۔
انہوں نے کھیلوں کے اس مقابلے اٹلانٹا اولمپکس مین چار کانسی کے تمغے اپنے نام کیے۔