کراچی —
دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں، آپ سب کو طارق عزیز کا سلام پہنچے۔ اب پاکستان ٹیلی ویژن پر یہ الفاظ کبھی نہیں گونجیں گے۔ کیوں کہ پاکستان میں جس آواز سے ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا جس شخصیت نے 45 سال سے زائد عرصے تک لوگوں کو ایک معلوماتی پروگرام کے ذریعے جوڑے رکھا اور آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کیا، وہ اب ہم میں نہیں رہے۔
شہور ٹی وی کمپیئر، میزبان، اداکار، شاعر، ادیب اور ہر دلعزیز طارق عزیز اب اپنے مداحوں اور چاہنے والوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔
خاندانی ذرائع کے مطابق اُن کا انتقال بدھ کو لاہور میں حرکت قلب بند ہونے سے ہوا۔
طارق عزیز 1936 کو بھارت کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ فنی کریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا اور بعد میں فلموں میں اداکاری بھی کی۔ لیکن ان کو جو شہرت ‘نیلام گھر’ سے ملی، وہ خوش نصیبوں کے ہی حصے میں آتی ہے۔ نیلام گھر کئی دہائیوں تک پاکستان کے ہر بچے، بوڑھے اور جوان کا پسندیدہ شو رہا۔
اس سے قبل وہ پی ٹی وی کے پہلے اناؤنسر کے طور پر ہر دل میں گھر کر چکے تھے لیکن ‘نیلام گھر’ کی میزبانی اور لوگوں کو معلومات کے ساتھ ساتھ تفریح مہیا کرنے کی وجہ سے ان کا ہر پاکستانی کے دل میں ایک الگ مقام تھا۔
‘ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے’
طارق عزیز کے اس منفرد انداز نے 70، 80 اور 90 کی دہائی میں حاضرین، ناظرین اور شائقین کو تو متاثر کیا ہی، ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی معلومات میں اضافے کا بھی باعث بنے۔
یہ وہ دور تھا جب دنیا میں انٹرنیٹ عام نہیں ہوا تھا اور لوگوں کی تفریح کا واحد ذریعہ ٹیلی ویژن تھا۔ طارق عزیز نے اس میڈیم کو عمدگی سے اپنایا اور لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔
اپنے شو میں شریک افراد سے کس طرح داد وصول کرنی ہے۔ مہمان سے کون کون سے سوال پوچھنے ہیں اور کس موقع پر کونسا شعر سنانا ہے۔ وہ ان تمام چیزوں کے ماسٹر تھے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک وقت اس شو کے پاسز ملنا اتنا مشکل ہوگئے تھے کہ معروف کامیڈی شو ‘ففٹی ففٹی’ میں اس پر ایک خاکہ بھی بنا دیا گیا تھا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ کے پہلے رنگین پروگرام ہونے کا اعزاز بھی اسی پروگرام کو حاصل ہے۔ طارق عزیز کا نرالا انداز اس پروگرام کی جان تھی جس میں اپنے زمانے کے ہر اداکار، اداکارہ، ہدایت کار، گلوکار، ادیب، سائنس دان،سیاست دان، سماجی کارکن سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی۔
پاکستانی کرکٹر محسن خان اور بھارتی اداکارہ رینا رائے کا شادی کے بعد پہلا انٹرویو ہو یا اداکارہ ریما خان کی فلم ‘بلندی’ کی کامیابی کے بعد ٹی وی پر پہلی بار آمد، ایٹمی دھماکوں کے بعد سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ٹی وی پر پہلا انٹرویو ہو یا پھر عاقب جاوید کی ہیٹ ٹرک کے بعد کسی بھی پروگرام میں گفتگو، نیلام گھر کا ہر ڈھنگ ہی منفرد تھا۔
نئے شادی شدہ جوڑوں کی ایک ساتھ شو میں آمد ہو، اسکول اور کالج کے طلبہ کے کوئز مقابلوں میں شرکت یا بیت بازی کے مقابلے، ‘نیلام گھر’ نے ناظرین کو تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات بھی فراہم کیں۔
اُردو زبان سے محبت کرنے والے افراد طارق عزیز کی یادداشت کے دیوانے تھے جو بات بات پر شعر کہتے تھے۔ حالات حاضرہ کے شوقین ہر مہمان کے تعارف سے اس کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے تھے اور ہر کامیاب انسان کی کامیابی کا اندازہ اس شو میں آمد سے ہی لگایا جاتا تھا۔
آج کل ہونے والے گیم شوز میں جو کچھ ہوتا ہے، اس کی بنیاد بھی طارق عزیز نے رکھی جس طریقے سے ان کے شو میں گاڑیاں جیتی جاتیں یا لوگ موٹر سائیکل اپنے نام کر لیتے اس سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی تھی۔
معروف اداکار اور ٹی وی کمپیئر فیصل قریشی کا کہنا ہے کہ طارق عزیز شو سے ان جیسے کئی لوگوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ انہوں نے اس پروگرام سے بہت کچھ سیکھا۔
وائس آف امریکہ سےبات کرتے ہوئے فیصل قریشی کا کہنا تھا کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ہر عمر کے لوگوں سے خود کو جوڑ سکتے ہیں۔ طارق عزیز صاحب ایک ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے جس سے ہر کوئی جڑ جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ طارق عزیز سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو موقع ملا، نہ صرف وہ پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے اناؤنسر تھے بلکہ ان کا اپنا ایک انداز تھا جس کی آج سب کاپی کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک سلجھے ہوئے انسان تھے بلکہ ان کا مطالعہ ہماری معلومات میں ہر ہفتے اضافہ کرتا تھا۔
فیصل قریشی نے مزید کہا کہ آج کل ٹی وی پر کئی گیم شوز ہو رہے ہیں لیکن جو بات ‘نیلام گھر’ کی تھی وہ کسی میں نہیں۔ وہ شو آج بھی لوگوں کو یاد ہے اور لوگ اسے بڑے شوق سے دیکھا بھی کرتے تھے۔
فیصل کا کہنا تھا کہ "مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ایک بار ‘نیلام گھر’ میں گیا تھااور خوب شور مچایا تھا، جس محنت سے طارق عزیز صاحب وہ شو کیا کرتے تھے جس پیار سے وہ لوگوں سےبات کرتے تھے، اس کو ہم سب بہت مس کریں گے۔”
‘نیلام گھر نے طارق عزیز کو اداکاری سے دور کردیا تھا’
طارق عزیز ایک مایہ ناز کمپیئر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین اداکار بھی تھے۔ 60 اور 70 کی دہائی میں انہوں نے کئی ہٹ فلموں میں کام کیا۔ محمد علی اور شمیم آرا کے ساتھ اُنہوں نے فلم ‘ہمراز’ وحید مراد اور زیبا کے ہمراہ ‘انسانیت’ شکیل کے ساتھ ‘زندگی’ کمال اور دیبا کے ساتھ فلم ‘دل دیوانہ’ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
اُنہوں نے وحید مراد اور شمیم آرا کے ساتھ فلم ‘سالگرہ’ پاکستان ایئر فورس کے تعاون سے بننے والی پہلی فلم ‘قسم اس وقت کی’ میں بھی کام کیا جب کہ ندیم اور شبنم کے ساتھ ‘چراغ کہاں روشنی کہاں’ میں کردار ادا کیا۔
طارق عزیز نے رنگیلا اور نشو کے ہمراہ ‘کبڑا عاشق’، وحید مراد اور شبنم کے ساتھ ‘نشانی’، بابرہ شریف، آصف رضا میر اور عثمان پیرزادہ کے ساتھ ‘مس ہانگ کانگ’ اور اسماعیل شاہ کے ساتھ فلم ‘ماں بنی دلہن’ میں کام کیا۔ ان تمام فلموں میں طارق عزیز کی اداکاری آج بھی سب کو یاد ہے۔
فلم اور ٹی وی کے معروف اداکار غلام محی الدین کا کہنا تھا کہ طارق عزیز کی موت سے پاکستان ٹیلی ویژن اور دنیا بھر میں اس کے دیکھنے والوں کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طارق عزیز جیسے پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
غلام محی الدین کا کہنا تھا کہ طارق عزیز کا انتقال ایک سانحے سے کم نہیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ایسے آرٹسٹ جن کے اندر ایک دانشور تھا، ایک عمدہ اینکر اور سب سے بڑی بات ایک بہت اچھے انسان بھی تھے۔ نہ صرف وہ پی ٹی وی کے پہلے اینکر تھے بلکہ 45 سال تک ‘نیلام گھر’ کر کے انہوں نے ایک ایسا ریکارڈ بنایا جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیوں کہ طارق عزیز ایک پڑھے لکھے تخلیقی انسان تھے، اس لیے انہوں نے نیلام گھر تخلیق کیا۔ ان کی وجہ سے وہ پراگرام آسمان کی بلندیوں کو چھونے میں کامیاب ہوا۔ لوگ یہ شو ان کے اشعار اور سوالات پوچھنے کے منفرد انداز کی وجہ سے دیکھتے تھے۔
طارق عزیز نے ٹی وی پر اپنی مصروفیات کی وجہ سے اسی کی دہائی میں فلموں میں اداکاری محدود کر دی تھی اور نوے کی دہائی میں اداکاری کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ پہلے ان کے شو کا نام بدل کر ‘طارق عزیز شو’ رکھا گیا اور بعد میں اسے ‘بزم طارق عزیز’ کا نام دیا گیا۔ لیکن نہ تو اس تبدیلی سے طارق عزیز کے انداز گفتگو میں کوئی فرق آیا اور نہ ہی ان کے مداحوں میں کوئی کمی ہوئی۔
بقول غلام محی الدین "مجھے افسوس ہے کہ فلموں میں میں طارق عزیز صاحب کے ساتھ کام نہیں کرسکا کیوں کہ جب میں فلموں میں آیا تو وہ نیلام گھر کی وجہ سے ٹی وی پر مصروف ہو گئے تھے۔ لیکن ان کے شو پر کئی بار گیا۔ وہ نہ صرف ایک ملنسار آدمی تھے بلکہ ایک مکمل شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی موت ایک افسوسناک واقعہ ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔”
طارق عزیز اور سیاست، ہر دور میں کامیاب
طارق عزیز کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1992 تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کہتے ہیں کہ ان کی کمپیئرنگ کا انداز اس لیے عوامی تھا کیوں کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے متاثر تھے اور ان کا شمار بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
ضیا دور میں بھی ان کا پروگرام زور وشور سے جاری رہا اور 1997 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر لاہور سے قومی اسمبلی کا الیکشن جیتنے کے باوجود بھی انہوں نے ٹی وی سے ناطہ نہیں توڑا۔
جنرل مشرف کے دور میں انہوں نے کراچی میں ہونے والے جلسے کی میزبانی کی جس میں جنرل مشرف نے سیاست میں قدم رکھنے کا اعلان کیا تھا اور بعد میں وہ پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے تھے۔
غلام محی الدین نے یہ بھی کہا کہ طارق عزیز صاحب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور ان کے ہمراہ شملہ بھی گئے تھے۔ جہاں اس وقت کے وزیر اعظم نے ان سے مشورے بھی لیے تھے۔
طارق عزیز، پاکستان میں ماڈرن ہوسٹنگ کے بانی
اداکار احسن خان نے کمپیئرنگ میں طارق عزیز کو اپنے استاد کا درجہ دیتے ہوئے کہا کہ برصغیر پاک و ہند میں ان جیسا میزبان نہ تو آیا ہے اور نہ ہی کوئی آئے گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حاضرین سے کس طرح بات کرنی ہے۔ مہمانوں سے کس طرح پیش آنا ہے، یہ سب کچھ انہیں طارق عزیز صاحب نے سکھایا۔
احسن خان نے مزید کہا کہ "طارق عزیز پاکستان میں ماڈرن ہوسٹنگ کے بانی تھے۔ ان کے لیول کا میزبان، ان کے جیسے اسٹائل کا کمپیئر نہ کوئی ہے، تھا اور نہ ہی ہو گا۔ آج کل جو بھی لوگ اس فیلڈ میں ہیں وہ سب اسی لیجنڈری میزبان کی شاخیں ہیں۔”
احسن خان کا کہنا تھا کہ "طارق عزیز ایک بہترین میزبان کے ساتھ ساتھ ایک بڑے دل کے انسان بھی تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے متعدد بار ان کا انٹرویو کیا اور ان سے ملاقات بھی رہی۔ وہ طارق عزیز صاحب ہی تھے جنہوں نے مجھے بتایا کہ شو کے دوران لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے۔”
احسن خان نے مزید کہا کہ تقریبا ساٹھ سال تک ایک گریس فل طریقے سے اپنی فنی زندگی گزارنے والے طارق عزیز جیسے لوگ اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ شوبر میں کوئی اتنے سال بغیر کسی اونچ نیچ کے نہیں گزار سکتا۔ یہ خوبی صرف چیدہ چیدہ لوگوں میں ملے گی جس میں سے طارق عزیز ایک تھے۔
بقول فیصل قریشی، طارق عزیز جیسے لوگ مرتے نہیں ہیں وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ ان کی وفات سے نہ صرف ہم سب غمزدہ ہو گئے ہیں، بلکہ ایک باب ختم ہو گیا، ایک دور کا اختتام ہو گیا ہے۔
فلموں کے ساتھ ساتھ طارق عزیز نے ٹی وی پر بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سینئر اداکار منور سعید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پہلے ٹی وی ڈرامے میں مرکزی کردار طارق عزیز نے ہی ادا کیا تھا۔
منور سعید کا کہنا تھا "جب میں نے ٹی وی کا پہلاڈرامہ 1967 میں کیا تھا تو اس میں طارق عزیز نے مجرم کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس ڈرامے میں دو تین ہی کریکٹرز تھے جس میں میرا رول ایک پولیس والے کا تھا۔ اس وقت طارق عزیز کراچی میں ہی رہتے تھے جس کی وجہ سے ان سے کافی ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر ہم نے کئی فلمیں بھی ساتھ کیں جن میں ‘مس ہانگ کانگ’ قابل ذکر ہے۔ میں نے انہیں ایک محبتی انسان پایا جو ہر ایک سے پیارسے پیش آتے تھے۔”
اسی فلم میں ہیرو کا کردار ادا کرنے والے عثمان پیرزادہ کا کہنا تھا کہ طارق عزیز کے انتقال سے انہیں بہت رنج ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا "طارق عزیز کو اگر پاکستان کا پہلا شو مین کہا جائے تو غلط نہ ہوگا جس دن انہوں نے پاکستان میں ٹی وی نشریات کے آغاز کا اعلان کیا۔ اسی دن میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی اور بعد میں مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
عثمان پیرزادہ نے مزید کہا کہ طارق عزیز ایک اچھے دوست اور انسان تھے جو بہت کم بات کرتے تھے۔ ‘وہ ایک کم گو انسان تھے۔ لیکن جب بولتے تو اچھا بولتے تھے۔ انہیں شاعری سے لگاؤ تھا اور خود بھی پنجابی میں شعر کہا کرتے تھے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی اہلیہ اداکارہ ثمینہ پیرزادہ نے بھی طارق عزیز کے ساتھ کام کیا۔ اُن کے بقول بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہو گا ثمینہ بطور خاتون میزبان نیلام گھر میں کام کر چکی ہیں۔
یقیناً طارق عزیز کے انتقال سے پاکستان ٹیلی ویژن کا ایک باب بند ہو گیا بلکہ وہ تمام لوگ جو ان کو دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے، وہ ایک شفیق بزرگ سے بھی محروم ہو گئے۔ نہ کوئی ان کی طرح پروگرام کا آغاز کرنے والا آیا، نہ کوئی ان کی طرح شو ختم کرنے والا آئے گا۔ پاکستان زندہ باد!