کراچی —
ہر کرکٹر کی خواہش ہوتی ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنے ملک کی نمائندگی کرے لیکن کرکٹ میں کچھ ایسے بھی کھلاڑی گزرے ہیں جنہیں دو ملکوں کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
جنوبی افریقہ کے سابق آل راؤنڈر ڈیوڈ ویزا اور لیفٹ آرم اسپنر ریولوف وین ڈر میرو ے نے عمان اور متحدہ عرب امارات میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بالترتیب نمیبیا اور نیدرلینڈز کی نمائندگی کر کے ان کھلاڑیوں کی فہرست میں جگہ بنالی ہے جنہوں نے دو انٹرنیشنل کرکٹ ٹیموں کی جرسیاں پہنی ہوں۔
محدود اوور کی کرکٹ میں نہ وہ یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے کھلاڑی ہیں اور نہ ہی آخری۔ ان سے قبل بھی کئی نامور کھلاڑی مختلف وجوہات کی بنا پر ایک ٹیم کو چھوڑ کر دوسری ٹیم کی نمائندگی کرچکے ہیں۔
ایسے ہی چند نمایاں کھلاڑیوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی ہوم ٹیم بدلی لیکن کارکردگی پر فرق نہیں پڑا۔
کیپلر ویسلز
سن 1957 میں جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے کیپلر ویسلز جب انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے قابل ہوئے تو ان کے ملک پر نسلی تعصب کی وجہ سے کرکٹ کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ ایسے میں آسٹریلوی بزنس مین کیری پیکر کی ورلڈ سیریز نے انہیں انٹرنیشنل کرکٹرز کے ساتھ کھیلنے کا موقع دیا۔
بطور اوپننگ بلے باز اچھی کارکردگی اور آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے لیے کوالیفائی کرنے کے بعد انہیں آسٹریلوی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سینچری اسکور کی بلکہ ایشز سیریز میں ایسا کرنے والے پہلے جنوبی افریقی نژاد کھلاڑی بھی بنے۔
His international career saw him hit Test centuries for both Australia and South Africa 👏 👏
— ICC (@ICC) September 14, 2019
Happy birthday, Kepler Wessels! pic.twitter.com/QBoWFtlBiV
اس کے بعد وہ آسٹریلوی ٹیم کے مستقل رکن بن گئے اور 1983 کے ورلڈ کپ میں زمبابوے کے خلاف ناکام میچ میں ٹاپ اسکورر رہے۔ 1985 میں انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد تو کہا، لیکن چھ سال بعد اپنے آبائی ملک کی طرف سے بطور کپتان دوبارہ ایکشن میں نظر آئے۔
کیپلر ویسلز نے جنوبی افریقہ کی جانب سے 34 سال کی عمر میں ٹیسٹ اور ون ڈے ڈیبیو کیا اور بحیثیت قائد اپنے پہلے ہی ایونٹ میں ٹیم کو سیمی فائنل تک پہنچا دیا۔ انہوں نے اپنے دو ملکی کریئر کے دوران ٹیسٹ کرکٹ میں چھ سینچریوں کی مدد سے 2788 رنز اور ون ڈے کرکٹ میں ایک سینچری کی بدولت 3367 رنز اسکور کیے۔
اینڈرسن کمنز
اینڈرسن کمنز کا شمار نوے کی دہائی میں ایک زبردست فاسٹ بالرز میں ہوتا تھا لیکن صرف پانچ ٹیسٹ اور 1992 کے ورلڈ کپ کے چھ میچز سمیت 63 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے والے اس کرکٹر نے نوے کی دہائی کے آخر میں کینیڈا میں سکونت اختیار کرلی۔
دس سال کا عرصہ گمنامی میں گزارنے کے بعد کمنز نے ورلڈ کپ 2007 میں 40 سال کی عمر میں کم بیک کر کے، ورلڈ کپ میں دو ملکوں کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
وہ کیپلر ویسلز کے بعد اس وقت تک یہ کارنامہ انجام دینے والے دوسرے کھلاڑی بن گئے تھے۔
این مورگن
یہ بات جان کر کئی لوگوں کو حیرانی ہوگی کہ موجودہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انگلش ٹیم کی قیادت کرنے والے این مورگن اس سے قبل آئرلینڈ کی جانب سے ون ڈے کرکٹ کھیل چکے ہیں۔
سال 2007 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف میچ میں ان کے دو کیچز نے گرین شرٹس کو آغاز سے ہی مشکلات میں رکھا تھا۔
دو سال بعد وہ انگلش کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرتے نظر آئے۔ جب انہوں نے انگلینڈ کی جانب سے بنگلادیش کے خلاف سن 2010 میں سینچری اسکور کی تو وہ دو ممالک کی طرف سے ون ڈے کرکٹ میں سینچری بنانے والے پہلے کھلاڑی بن گئے تھے۔
این مورگن کی قیادت میں انگلش ٹیم نے پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کرکٹ 2019 کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔
ایڈ جوائس اور بوئیڈ رینکن
دو ملکوں کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں ایڈ جوائس اور بوئیڈ رینکن بھی شامل ہیں جنہوں نے انگلینڈ اور آئرلینڈ دونوں کی محدود اوور کی کرکٹ میں نمائندگی کی۔
ایڈ جوائس نے 2006 سے 2007 کے درمیان انگلینڈ کے لیے 17 ون ڈے اور دو ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے جس میں آسٹریلیا کے خلاف یادگار سینچری شامل ہے۔
🅰️ 97 international appearances
— ICC (@ICC) September 22, 2019
🏏 3074 runs
Teams represented: ☘️🏴
Current head coach of the Ireland women's team 🙌
Happy birthday, Ed Joyce 🎂 pic.twitter.com/8F1nANfFSF
لیکن جب 2011 میں آئرش ٹیم کو ان کی ضرورت پڑی تو آئی سی سی کی خصوصی ہدایت کے بعد انہیں اپنے آبائی ملک کی جانب سے کھیلنے کی اجازت ملی۔
انہوں نے 2018 میں پاکستان کے خلاف آئرلینڈ کے پہلے ٹیسٹ میں بھی نمائندگی کی اور مجموعی طور پر آئرلینڈ کی جانب سے ایک ٹیسٹ، 61 ون ڈے اور 16 ٹی ٹوئٹی میچز کھیلے۔
دوسری جانب بوئیڈ رینکن نے پہلے آئرلینڈ کی نمائندگی کی پھر کچھ عرصے انگلینڈ کے لیے کھیلا۔ جب انگلش ٹیم میں ان کی جگہ نوجوان کرکٹرز نے لے لی تو وہ واپس آئرلینڈ آگئے۔ 2007 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران انہوں نے 12 وکٹیں حاصل کیں جس میں پاکستان کے خلاف اپ سیٹ فتح میں ان کی تین وکٹیں شامل تھیں۔
سن 2012 میں انہوں نے انگلینڈ کے لیے کرکٹ کھیلنے کی خواہش میں آئرلینڈ کو خیرباد کہا اور 2013 میں انگلینڈ کے لیے ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے انٹرنیشنل ڈیبیو کیا۔ لیکن صرف دو سال انگلینڈ کی نمائندگی کرنے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر آئرلینڈ واپس چلے گئے، اور اپنے آبائی ملک کے پہلے ٹیسٹ میں نمائندگی کرنے میں کامیاب ہوئے۔
جس طرح این مورگن، ایڈ جوائس اور بوئیڈ رینکن نے آئرلینڈ کے بعد انگلینڈ کی نمائندگی کی، ویسے ہی ان سے پہلے ڈگی براؤن نے کیا، لیکن انہوں نے پہلے انگلینڈ اور پھر اسکاٹ لینڈ کی جانب سے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی۔
لیوک رونکی
انٹرنیشنل کرکٹ کی جب بھی دو ملکوں کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کی بات ہو گی تو لیوک رونکی کا نام اس فہرست میں ہو گا۔ انہوں نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ، دونوں ٹیموں کی جانب سے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں نمائندگی کی۔
لیوک رونکی نیوزی لینڈ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی زیادہ تر کرکٹ آسٹریلیا میں کھیلی جہاں ان کے والدین ہجرت کر کے چلے گئے تھے۔ بریڈ ہیڈن کی غیر موجودگی میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ڈیبیو کرنے والا یہ وکٹ کیپر بیٹسمین 2007 سے 2009 تک آسٹریلوی ٹیم کا حصہ رہا۔
تاہم آسٹریلیا کے لیے صرف تین ٹی ٹوئنٹی اور چار ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلنے کے بعد لیوک رونکی نے نیوزی لینڈ واپس جانے کا فیصلہ کیا اور 2013 سے 2017 کے درمیان اپنے آبائی ملک کی 30 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اور 81 ون ڈے انٹرنیشنل میں نمائندگی کی۔
New Zealand are short of fit players in Auckland, and fielding coach Luke Ronchi is on the field! https://t.co/Aq4LC8OkYa | #NZvIND pic.twitter.com/fL4DHphPdm
— ESPNcricinfo (@ESPNcricinfo) February 8, 2020
سن 2015 کے ورلڈ کپ فائنل میں اس وقت دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوگئی جب لیوک رونکی نیوزی لینڈ کی طرف سے اپنی سابق ٹیم کے خلاف ایکشن میں نظر آئے۔
اسی ورلڈکپ کے دوران انہوں نے سری لنکا کے خلاف 170 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیل کر گرانٹ ایلیٹ کے ساتھ چھٹی وکٹ پر 267 رنز کی ناقابلِ شکست شراکت قائم کی جو ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔
وہ انٹرنیشنل کرکٹرز جنہوں نے کرکٹ کھیلنے کے لیے ہجرت کی
اور اب بات ان کرکٹرز کی جنہوں نے اپنے آبائی ملک میں مواقع کم ہونے کی وجہ سے ہجرت کی اور اس ورلڈ کپ میں دوسری ٹیم کی جانب سے ایکشن میں نظر آرہے ہیں۔
ریولوف وین ڈر مروے جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے اور وہیں سے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ سن 2009 میں اپنے پہلے ہی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ میں انہوں نے 30 گیندوں میں 48 رنز بنائے اور ایک وکٹ حاصل کرنے پر مین آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کیا۔
The move to promote Roelof van der Merwe fails to pay dividends.
— T20 World Cup (@T20WorldCup) October 20, 2021
David Wiese gets his scalp for 6 ☝️#T20WorldCup | #NAMvNED | https://t.co/KktJFoDjmz pic.twitter.com/kDZPeeRtiV
اس عمدہ کارکردگی کے بعد انہیں جیک کیلس کے متبادل کے طور پر جنوبی افریقہ کے ون ڈے اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔ لیکن 17 ون ڈے اور 14 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں 13، 13 وکٹیں حاصل کرنے والے اس لیفٹ آرم اسپنر کو جب اپنا جنوبی افریقی کریئر ڈوبتا نظر آیا، تو اس نے نیدرلینڈز جانے کا فیصلہ کیا۔
سن 2015 میں انہوں نے نیدرلینڈز کی جانب سے ٹی ٹوئنٹی اور 2019 میں ون ڈے انٹرنیشنل ڈیبیو کیا۔ اس وقت جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ نیدرلینڈز کی جانب سے ان کا دوسرا بڑا ایونٹ ہے۔ اس سے قبل وہ 2016 میں بھی ڈچ ٹیم کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
ڈیوڈ ویسے
ڈیوڈ ویسے کو پاکستانی شائقینِ کرکٹ اچھی طرح جانتے ہیں کیوں کہ انہوں نے پاکستان سپر لیگ میں لاہور قلندرز کی جانب سے کئی میچز میں یادگار پرفارمنس دی۔
سن 2013 سے 2016 کے درمیان جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے اس آل راؤنڈر نے مجموعی طور پر پروٹیز کے لیے چھ ون ڈے انٹرنیشنل میچز اور 20 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے جس میں 24 وکٹیں قابل ذکر ہیں۔
سن 2017 میں انہوں نے کولپیک ڈیل سائن کرلی جس کے بعد وہ انٹرنیشنل لیگ کھیلنے کے لیے اہل ہوئے لیکن جنوبی افریقہ کے لیے نا اہل ہو گئے۔ تاہم ان کے والد کی وجہ سے، جو نمیبیا میں پیدا ہوئے تھے، ڈیوڈ ویسے نمیبیا کی نمائندگی کے اہل ہوئے اور یوں 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والا کرکٹر پانچ سال بعد نمیبیا کی جانب سے ایکشن میں نظر آیا۔
ڈرک نینز
یہاں آسٹریلوی پیسر ڈرک نینز کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جس نے ایک ہی سال میں اپنے آبائی ملک اور والدین کے ملک کی نمائندگی کی۔
اپنے ڈچ والدین کی وجہ سے پہلے ڈرک نینز 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں نیدرلینڈز کا حصہ تھے جب کہ اپنی آسٹریلوی پیدائش کی وجہ سے انہوں نے اسی سال آسٹریلیا کے لیے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ڈیبیو کیا۔
Happy birthday to former left-arm pacer Dirk Nannes, who is one of a select group of players to turn out for two countries 🇦🇺 🇳🇱
— ICC (@ICC) May 16, 2020
Playing for Australia, he was the highest wicket-taker in the 2010 @T20WorldCup. pic.twitter.com/QjqMd2lfCk
انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں نیدرلینڈز کی کامیابی میں جہاں ان کا ہاتھ تھا وہیں اگلے سال ہونے والے ایونٹ میں وہ آسٹریلیا کے کامیاب ترین بالر ثابت ہوئے۔