راچی —
ہالی وڈ کا نام سامنے آتے ہی یوں تو اڑتے ہوئے سپر ہیروز، کامیاب فلموں کے سیکوئلز اور ایڈونچر سے بھرپور فلموں کا خیال آتا ہے، لیکن ‘بائیوپکس’ کے معاملے میں بھی ہالی وڈ کسی سے کم نہیں۔
کچھ فلمیں تو ایسی بھی ہیں جن سے لطف اندوز ہونے کے باوجود لوگوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ حقیقی دنیا کے کسی انسان کی زندگی پر بنی فلم تھی۔
ہالی وڈ میں حقیقی زندگی کے بہت سے معروف اور غیر معروف کرداروں پر کئی ایسی فلمیں بن چکی ہیں جن کے لوگ آج بھی مداح ہیں۔ ان فلموں کے ذریعے کچھ ایسے افراد کی زندگیوں کو بھی اسکرین پر آنے کا موقع ملا جنہیں خود یقین نہیں تھا کہ کبھی اُن پر بھی کوئی فلم بنے گی۔
پروفیسر جان نیش: اے بیوٹی فل مائنڈ (2001)
ہالی وڈ کی تاریخ میں بہت کم ایسی فلمیں بنی ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ ایک بائیوپک فلم تھی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پروفیسر جان نیش کی زندگی پر بنی فلم ‘اے بیوٹی فل مائنڈ’ کے ساتھ تھا۔
جان نیش ایک ایسے امریکی ریاضی دان تھے جنہیں ‘اسکٹزو فرینیا’ جیسی بیماری لاحق تھی۔ اس بیماری کی وجہ سے اپنے کالج کے دنوں سے ادھیڑ عمری تک وہ نہ صرف خیالی لوگوں سے باتیں کرتے رہے بلکہ ان فرضی لوگوں کو اپنی زندگی کا حصہ بھی سمجھتے تھے۔
اس نفسیاتی مسئلے کے باوجود نہ صرف انہوں نے اپنی زندگی پوری طرح انجوائے کی بلکہ 1994 میں اپنی تھیوریز کی وجہ سے اکنامکس کا نوبیل پرائز بھی جیتا۔
پروفیسر جان نیش کی زندگی پر بننے والے فلم میں مرکزی کردار آسٹریلوی اداکار رسل کرو نے ادا کیا۔ جس وقت فلم ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر کامیاب ہوئی، اس وقت جان نیش حیات تھے اور انہیں خود بھی یہ فلم کافی پسند آئی۔
اس فلم میں شان دار اداکاری پر رسل کرو کو ‘دی انسائیڈر مین’ اور ‘گلیڈی ایٹرز’ کے بعد مسلسل تیسری بار آسکر کی بہترین اداکار کی کیٹیگری میں نامزد تو کیا گیا، لیکن وہ ایوارڈ جیت نہ سکے۔
لیکن یہ فلم بہترین فلم کا ایوارڈ جیتنے کے ساتھ ساتھ بہترین ہدایت کار (رون ہاورڈ)، بہترین اداکارہ (جینیفر کونیلی) اور بہترین ڈرامائی تشکیل (اکیوا گولڈزمین) کا ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
باکسر محمد علی: علی (2001)
محمد علی باکسر کو دنیا کا مشہور و مقبول ترین اسپورٹس مین کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ امریکہ سے لے کر افریقہ تک اور یورپ سے لے کر ایشیا تک شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں محمد علی معروف نہ ہوں۔
اس عظیم باکسر نے ایک سیاہ فام ہونے کے باوجود اس وقت دنیا میں اپنا مقام بنایا جب امریکہ جیسے ملک میں بھی سیاہ فام افراد کو امتیازی سلوک کا سامنا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار مائیکل مین نے اس لیجنڈری باکسر کی بائیو پک میں معروف اداکار وِل اسمتھ کو کاسٹ کیا اور اس فلم کو دیکھنے کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ وِل اسمتھ کے علاوہ یہ کردار کوئی اور ادا کر ہی نہیں سکتا تھا۔
نہ صرف اس دبلے پتلے اداکار نے محمد علی بننے کے لیے اپنا وزن بڑھایا اور ٹریننگ کی، بلکہ کچھ فائٹ سینز میں تو وہ عظیم باکسر کی طرح رنگ میں لڑتے بھی نظر آئے۔
فلم کی کہانی میں کئی موڑ آتے ہیں۔ کیسیس کلے کیسے محمد علی بنا؟ کیوں اس نے اپنا مذہب بدلا؟ اسے ایسا کرنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ اور ایسے میں کن کن لوگوں نے اس کا ساتھ دیا؟ ان سب باتوں نے اس فلم کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس فلم میں بہترین اداکاری پر وِل اسمتھ اور بہترین معاون اداکاری کے لیے جون ووئیٹ آسکر کے نامزد تو ہوئے لیکن دونوں ایوارڈ جیتنے میں ناکام رہے۔ مگر محمد علی کے چاہنے والوں کو ایک ایسی فلم دے گئے جسے وہ مدتوں یاد رکھیں گے۔
فرینک ایباگنیل: کیچ می اِف یو کین (2002)
محمد علی کی بات ہو اور ‘کیچ می اِف یو کین’ کا ذکر نہ ہو یہ نا ممکن ہے۔ محمد علی کی مناسبت سے بننے والا گانا اس قدر مشہور ہوا کہ جب اسٹیون اسپیل برگ نے فرینک ایباگنیل جونیئر پر فلم بنانے کا سوچا تو اس سے اچھا ٹائٹل انہیں نہیں سوجھا۔
ویسے تو فرینک ایباگنیل کو فراڈ اور دھوکہ دہی کی وجہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے وقت گزارنا پڑا تھا۔ لیکن لڑکپن میں کیے جانے والے جرائم کا ازالہ انہوں نے جیل سے باہر آ کر جس طرح کیا وہ کوئی ہیرو ہی کر سکتا ہے۔
اس فلم میں ہدایت کار اسٹیون اسپیل برگ نے فرینک ایباگنیل کے کردار میں ڈھالا لیونارڈو ڈی کیپریو کو اور جس خوب صورتی سے انہوں نے ایک ‘کون مین’ کا کردار نبھایا وہ قابلِ تعریف ہے۔
جس ایف بی آئی ایجنٹ نے اصل زندگی میں ایباگنیل کا تعاقب کیا تھا اور اسے بالآخر گرفتار کیا، اس کا نام جوزف شیا تھا۔ البتہ فلم میں ان کا نام بدل کر کارل ہینریٹی رکھا گیا اور یہ کردار نبھایا دو مرتبہ آسکر ایوارڈ جیتنے والے ٹام ہینکس نے۔
فلم کی کہانی فرینک ایباگنیل کے گرد گھومتی ہے جسے صرف اس وجہ سے کوئی نہیں پکڑ پا رہا تھا کیوں کہ اس کی عمر 18 سال سے کم تھی اور اس کے پاس نہ تو شناختی کارڈ تھا اور نہ ڈرائیونگ لائسنس۔ اسے ایف بی آئی نے کس طرح پکڑا اور بعد میں اسے اپنی ٹیم کا کیسے حصہ بنایا، یہ سب کچھ اس فلم کے ذریعے شائقین کو پتا چلتا ہے۔
فلم میں فرینک کے والد کا کردار نبھانے والے کرسٹوفر واکن کو آسکر میں بہترین معاون اداکار کے لیے نامزد کیا گیا جب کہ موسیقار جان ولیمز کا بہترین اوریجنل اسکور بھی نامزد ہوا لیکن ایوارڈ دونوں میں سے کسی کے حصے میں نہیں آیا۔
آئس ہاکی کوچ ہرب بروکس: مریکل (2004)
امریکی آئس ہاکی ٹیم کے سابق کوچ ہرب بروکس کا کریئر بھی ایک کامیاب فلم کی طرح تھا۔ 1960 میں وہ امریکی ہاکی ٹیم کا حصہ تھے لیکن فائنل اسکواڈ میں کمی کرتے وقت انہیں ڈراپ کر دیا گیا اور امریکی ٹیم سرمائی اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔
اس کے بعد لگاتار پانچ اولمپکس میں سوویت یونین نے شان دار کارکردگی دکھا کر امریکہ کو گولڈ میڈل سے دور رکھا اور جب ہرب بروکس کو 1980 کے ایونٹ سے قبل کوچنگ کی ذمہ داری دی گئی تو انہوں نے ڈبل محنت کرکے ٹیم کو فاتح بنا دیا۔
ایونٹ کے سیمی فائنل میں جب امریکی ٹیم نے سوویت یونین کو شکست دی تو اس کامیابی کو ‘مریکل آن آئس’ کا نام دیا گیا تھا اور اسی لیے اس کامیابی پر بننے والی فلم کا ٹائٹل ‘مریکل’ رکھا گیا۔
اداکار کرٹ رسل نے نہ صرف فلم میں ہرب بروکس کا کردار بخوبی نبھایا بلکہ لیجنڈری کوچ کے ساتھ اس فلم پر کام بھی کیا۔ ہرب بروکس اس فلم کی شوٹنگ کے دوران کنسلٹنٹ کی حیثیت سے مشورے دیتے رہتے تھے لیکن فلم کی ریلیز سے چند دن قبل ایک حادثے میں ان کی موت ہو گئی۔
اس فلم کے بعد لوگوں کو پتا چلا کہ انہوں نے کس مشکل سے امریکی ٹیم کو از سرِ نو کھڑا کیا اور کیسے اپنے اعزاز کا دفاع کرنے والی ٹیم کے خلاف کامیابی کو یادگار بنایا۔
کرٹ رسل کی اداکاری اس قدر جان دار تھی کہ بالی وڈ نے فلم ‘چک دے انڈیا’ میں شاہ رخ خان سے جو کردار ادا کرایا وہ ہرب بروکس سے زیادہ متاثر تھا نہ کہ کسی بھارتی ہاکی کھلاڑی سے۔ یہ فلم آسکر کے لیے تو منتخب نہ ہو سکی لیکن اسے ‘ای ایس پی وائی’ (ایکسلینس ان اسپورٹس پرفارمنس ایئرلی ایوارڈ) نے بہترین اسپورٹس مووی 2004 کا ایوارڈ دیا۔
رے چارلس: رے (2004)
بالی وڈ فلم ‘اندھا دھن’ سے کئی سال پہلے ہالی وڈ نے ایک اندھے موسیقار کے کردار پر فلم بنائی تھی جو کامیاب بھی ہوئی اور اس نے ایوارڈز بھی سمیٹے۔
رے چارلس ایک ایسے موسیقار و گلوکار تھے جنہوں نے بچپن میں بینائی سے محروم ہونے کے باوجود بھی ہمت نہ ہاری اور موسیقی کی دنیا میں ایک بڑا نام بن کر ابھرے۔
جیمی فوکس نے اس فلم میں ‘رے’ کا کردار شان دار طریقے سے ادا کیا اور آسکر سمیت ہر بڑے ایوارڈ کی بہترین اداکار کی کیٹیگری میں نامزد ہوئے۔
رے چارلس کیسے بچپن میں اندھا ہوا، کن کن پریشانیوں سے گزر کر اس نے دنیا میں اپنا مقام بنایا اور پھر کس طرح موسیقی میں جدت پیدا کرکے خود کو امر کر دیا، اس فلم میں یہ سب کچھ دکھایا گیا ہے۔
رے چارلس اس فلم کی ریلیز سے کچھ عرصہ قبل انتقال کر گئے تھے۔ البتہ جس طرح جیمی فوکس نے ان کا کردار نبھایا وہ کافی عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔
ملکہ ایلزبتھ: دی کوئین (2006)
نیٹ فلکس کی مشہور سیریز دی کراؤن سے تقریباََ 10 برس قبل ہدایت کار اسٹیفن فریئرز نے ‘دی کوئین’ بنائی جس میں ملکہ ایلزبتھ کا ٹائٹل رول مشہور اداکارہ ہیلن میرن نے ادا کیا۔
فلم کی کہانی شہزادہ چارلس کی سابقہ اہلیہ لیڈی ڈیانا کی موت کے گرد گھومتی ہے جس کا ذمہ دار برطانوی عوام شاہی خاندان کو ٹھہرا رہے تھے۔ ایسے میں ملکہ نے کس طرح حالات کا مقابلہ کیا، وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے ملک کو اس مشکل گھڑی سے نکالا اور کیسے ڈیانا کو شاہی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا، اس فلم میں یہ سب کچھ خوب صورتی سے عکس بند کیا گیا ہے۔
اس فلم میں اپنی حقیقت سے قریب اداکاری پر ہیلن میرن نے بہترین اداکارہ کا اکیڈمی ایوارڈ جیتا جب کہ فلم کو بہترین پکچر، بہترین ہدایت کار، بہترین اوریجنل اسکرین پلے، بہترین اوریجنل اسکور اور بہترین کوسٹیوم ڈیزائن کی کیٹیگریز میں بھی نامزد کیا گیا تھا۔
فلم کو ہر جگہ پذیرائی ملی اور ملکۂ برطانیہ نے تو خاص طور پر ہیلن میرن کو ملاقات کے لیے مدعو کیا۔ لیکن وہ ہالی وڈ میں شوٹنگ میں مصروف ہونے کی وجہ سے دعوت میں شریک نہ ہو سکیں۔
اس کے بعد اداکارہ نیومی واٹس کو مرکزی کردار دے کر جرمن فلم میکر اولیور ہرش بیگل نے فلم ‘ڈیانا’ تو بنائی لیکن نہ تو اسے شائقین نے پسند کیا، نہ ہی شاہی خاندان نے۔
کنگ جارج: دی کنگز اسپیچ (2010)
ملکۂ برطانیہ جس بادشاہ کی بیٹی تھیں، ان کی بھی کہانی کم دھماکہ خیز نہیں تھی۔
‘دی کنگز اسپیچ’ ملکہ ایلزبتھ کے والد کنگ جارج کے اوپر بنائی گئی اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کولن فرتھ اس رول کے لیے آئیڈیل تھے تو یہ آپ کی بھول ہے۔
ان سے پہلے یہ کردار پال بیٹنی اور ہیو گرانٹ کو آفر ہوا تھا اوران دونوں کے منع کرنے کے بعد کولن فرتھ نے اسے ادا کرنے کی حامی بھری۔
فلم کی کہانی ایک ایسے بادشاہ کے گرد گھومتی ہے جو نہ صرف ہکلاتا ہے بلکہ اسے تقریر بھی کرنا نہیں آتی۔ ایسے میں اگر عالمی جنگ چھڑ جائے اور ساری رعایا بادشاہ کی طرف دیکھے تو اسے کیا کرنا چاہیے۔ یہی بتایا گیا ہے اس فلم میں۔
ٹام ہوپر نے اس فلم کی ہدایت کاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہی وجہ ہے کہ کولن فرتھ کنگ جارج بنے بھی اور لگے بھی۔
فلم کے دوران وہ سین سب سے زیادہ پسند کیے گئے جس میں انہیں یا تو تقریر کرنا پڑی یا پھر جس میں ان کے آسٹریلوی تھیراپسٹ لائنل لوگ (جیفری رش) انہیں سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ تقریر کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا وہ سمجھ رہے ہیں۔
کولن فرتھ کو اس فلم میں شان دار اداکاری کی وجہ سے بہترین اداکار کا اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ ساتھ ہی ساتھ ‘دی کنگز اسپیچ’ نے بہترین فلم، ٹام ہوپر نے بہترین ہدایت کار جب کہ ڈیوڈ سائیڈلر نے بہترین اوریجنل اسکرین پلے کا ایوارڈ بھی جیتا۔
مجموعی طور پر یہ فلم آسکر کی 12 کیٹیگریز میں نامزد ہوئی تھی جس میں بہترین فلم ایڈیٹنگ، آرٹ ڈائریکشن، کوسٹیوم ڈیزائن، ساؤنڈ مکسنگ، بہترین معاون اداکار جیفری رش، بہترین معاون اداکارہ ہیلینا بونہم کارٹر، اوریجنل اسکور اور سنیماٹو گرافی شامل تھیں۔
مارگریٹ تھیچر: دی آئرن لیڈی (2011)
برطانوی بادشاہ کے بعد چلتے ہیں برطانیہ کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کی جانب جن کی زندگی پر بنائی گئی فلم ‘دی آئرن لیڈی’ کو سب نے پسند کیا سوائے مارگریٹ تھیچر کے۔ تھیچر کا کہنا تھا کہ میں اپنے اوپر بننے والی فلمیں اور ٹی وی پروگرام نہیں دیکھتی۔
فلم میں امریکی اداکارہ میرل اسٹریپ نے شان دار کارکردگی دکھائی۔ البتہ کئی برطانوی حلقوں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ اگر یہ کردار کسی برٹش اداکارہ سے کرایا جاتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ اس کے باوجود میرل اسٹریپ کو ایک ایسی وزیرِ اعظم کا کردار نبھانے پر، جس کے لیے اس کے اصول سب سے زیادہ اہم تھے، بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملا۔
فلم کی میک اپ ٹیم بھی بہترین میک اپ کا اکیڈمی ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
فلم کی کہانی مارگریٹ تھیچر کے دورِ حکومت کے گرد گھومتی ہے جنہوں نے مشکل حالات میں بھی برطانیہ کو دنیا کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔
ان کے فیصلوں سے دنیا کی تاریخ اور ان کی اپنی ازدواجی زندگی پر کیا اثر پڑا، یہ اس فلم میں بہت خوب صورتی سے دکھایا گیا ہے۔
جے ایڈگر ہوور: جے ایڈگر (2011)
ویسے تو لیونارڈو ڈی کیپریو نے ‘کیچ می اِف یو کین’ میں فرینک ایباگنیل کا کردار نبھا کر لوگوں سے خوب داد سمیٹی اور بعد میں ‘دی ایوی ایٹر’ میں ہالی وڈ ڈائریکٹر ہاورڈ ہیوز، ‘وولف آف وال اسٹریٹ’ میں جارڈن بیلفرٹ اور ‘دی ریوینینٹ’ میں ہیو گلاس کا کردار ادا کیا۔ البتہ جس مہارت سے انہوں نے کلنٹ ایسٹ وڈ کی فلم ‘جے ایڈگر’ میں ایف بی آئی کے سربراہ ایڈگرہوور کا کردار ادا کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
ایڈگر ہوورنے 1924 سے لے کر 1972 تک امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ‘ایف بی آئی’ کی قیادت کی۔ ان کے 48 سالہ دور میں کئی اہم واقعات بھی پیش آئے جن میں مشہور ایوی ایٹر چارلز لنڈبرگ کی بیٹی کے اغوا کا معاملہ سرِفہرست تھا۔
فلم میں اس واقعے سمیت کئی اور ایسے ہی کیسز کو فلم بند کیا گیا ہے جنہیں ایڈگر ہوور نے اپنی ایجنسی کے ذریعے حل کیا تھا۔
نوجوانی سے بڑھاپے تک کے اس سفر میں لیونارڈو ڈی کیپریو نے میک اپ کا سہارا تو لیا ہی، ساتھ ہی ساتھ فلم میں ایسی اداکاری بھی کی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔
شان دار کارکردگی پر انہیں ایوارڈ تو نہ ملا لیکن اس فلم کے ذریعے انہوں نے اکیڈمی ایوارڈ کی طرف ایک قدم بڑھایا۔
آسکر انہیں بالآخر ‘دی ریوینینٹ’ پر کچھ برس بعد مل ہی گیا جس کے بعد ‘ونس اپون اے ٹائم ان ہالی وڈ’ کے کردار پر بھی انہیں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔
نیل آرم اسٹرونگ: فرسٹ مین (2018)
نیل آرم اسٹرونگ کے نام سے تو سب ہی واقف ہیں۔ جب تک دنیا قائم ہے چاند پر پہلا قدم رکھنے والے خلاباز کو سب یاد رکھیں گے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس خلا باز کو یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے کتنی محنت کرنا پڑی اور کن کن مشکل حالات سے گزرنا پڑا تھا۔
فلم ‘فرسٹ مین’ نیل آرم اسٹرونگ کی جدوجہد پر مشتمل ہے جو شروع 1961 میں ہوئی اور جس کا اختتام چاند پر قدم رکھنے پر ہوا۔
اداکار رائن گوسلنگ نے اس فلم میں شان دار کارکردگی دکھائی اور ایسے انسان کا کردار ادا کیا جس کو جانتے تو سب ہیں لیکن اس کی کامیابی کی کہانی کسی کو نہیں معلوم۔
جیمز آر ہینسن کی کتاب ‘فرسٹ مین: لائف آف نیل اے آرم اسٹرونگ’ سے ماخوذ اس فلم کو آسکرز میں بہترین پروڈکشن ڈیزائن، بہترین ساؤنڈ ایڈیٹنگ، بہترین ساؤنڈ مکسنگ اور بہترین ویژوول افیکٹس کی کیٹیگری میں نامزد کیا گیا جس میں سے اسے کامیابی صرف آخری کیٹگری میں ملی۔
فریڈی مرکیوری: بوہیمین ریپسڈی (2018)
برطانوی راک بینڈ ‘کوئین’ اور فریڈی مرکیوری ویسے تو کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن برائن سنگر کی فلم ‘بوہیمین ریپسڈی’ نے اس کے اتار چڑھاؤ کو کچھ اس طرح بیان کیا کہ لوگوں کو لگا کہ وہ فریڈی کو جانتے ہی نہیں تھے۔
اس فلم میں فریڈی کا کردار نبھایا ریمی ملک نے جو نہ صرف فریڈی لگے بلکہ انہوں نے اسٹیج پر فریڈی کی طرح پر فارم کرکے ان کے چاہنے والوں کو ماضی کی یاد دلا دی۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ فرخ بلسارا، فریڈی مرکیوری کیسے بنا اور ان کے کن فیصلوں کی بدولت ایک نامعلوم بینڈ دنیا کے افق پر چمکنے لگا۔ بینڈ ممبرز سے کن وجوہات پر انہوں نے علیحدگی اختیار کی اور کس کس گانے نے ان کی شہرت کو چار چاند لگائے۔
فلم بہترین پکچر کا ایوارڈ تو نہ جیت سکی لیکن بہترین اداکار، بہترین ساؤنڈ ایڈیٹنگ، بہترین ساؤنڈ مکسنگ اور بہترین فلم ایڈیٹنگ کے شعبے میں نہ صرف نامزد ہوئی بلکہ ایوارڈ بھی جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
دیگر قابل ذکر بائیو پکس:
فریڈا، دی ایوی ایٹر، واک دی لائن، رش، دی وولف آف وال اسٹریٹ، جابز، اسٹیو جابز، ٹرمبو، دی فاؤنڈر، دی ریوینینٹ، ٹویلیو ایئرز اے سلیو، راکٹ مین، فورڈ ورسز فراری اور ایسی ہی بہت سی ہالی وڈ فلمیں بھی حقیقی کرداروں پر بنیں اور ناظرین سے داد سمیٹنے میں کامیاب رہیں۔