فلمیں

کبھی مشہور ڈائیلاگ تو کبھی کرداروں پر مبنی، پاکستانی فلموں کے دلچسپ نام

Written by Omair Alavi

کراچی — 

نیا سال تو شروع ہو گیا ہے لیکن پاکستان کے سنیما گھروں میں ابھی بھی وہی لالی وڈ فلمیں لگی ہوئی ہیں جو گزشتہ برس ریلیز ہوئی تھیں۔

امکان ہے کہ سال 2022 کی پہلی پاکستانی فلم ‘پیچھے تو دیکھو’ فروری میں سنیما کی زینت بنے گی۔

لیکن کیا ایک ایسی فلم سنیما بینوں کو اپنی طرف کھینچ لانے میں کامیاب ہو گی جس کا نام ایک مشہور مزاحیہ جملے سے لیا گیا ہو؟

جن لوگوں کو ‘پیچھے تو دیکھو’ کا بیک گراؤنڈ نہیں پتہ تو وہ انٹرنیٹ پر جا کر احمد شاہ نامی بچے کی ویڈیو دیکھ سکتے ہیں جس میں وہ اپنے مخصوص لہجے میں ‘پیچھے تو دیکھو’ کہہ رہا ہوتا ہے۔

احمد شاہ کا یہ جملہ انٹرنیٹ پر خوب وائرل ہوا تھا۔ اور اب اس جملے کے نام پر پاکستانی فلم بھی بنا دی گئی ہے۔

اگر پاکستان کی کامیاب ترین فلموں کی بات کی جائے تو ‘جوانی پھر نہیں آنی’ کا نام بالی وڈ فلم ‘مجھ سے شادی کروگی’ کے گانے ‘جینے کے ہیں چار دن’ کے بول سے لیا گیا ہے۔

فلم ‘طیفا ان ٹربل’ کا نام مزاحیہ پروگرام ‘ففٹی ففٹی’ کے خاکے ‘بشیرا ان ٹربل’ سے ملتا جلتا ہے جب کہ ‘دی ڈونکی کنگ’ کا نام سنتے ہی ہالی وڈ کی فلم ‘دی لائن کنگ’ ضرور دماغ میں آئی ہو گی۔

کسی بھی فلم کے لیے اس کے نام کا انتخاب ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ اکثر فلمیں صرف اپنے نام کی وجہ سے شائقین کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔

اگر پاکستانی فلموں کے ناموں کی بات کی جائے تو متعدد فلموں کے نام ایسے ہیں جسے سُن کر ہنسی آ جائے گی۔

اردو فلموں کے انگریزی نام

جس طرح انگریزی فلموں کے نام انگریزی اور فرنچ فلموں کے نام فرنچ زبان میں رکھے جاتے ہیں۔ ویسے ہی 1962 سے قبل پاکستان میں بننے والی اردو فلموں کے نام بھی اردو زبان میں ہی ہوتے تھے۔

لیکن یہ سب کچھ اس وقت بدلا جب ‘شیک ہینڈ’ نامی فلم ریلیز ہوئی جس کے بعد اردو فلموں کے انگریزی ناموں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔

سن 1971 میں پاکستان اور ایران کے اشتراک سے بننے والی فلم ‘جین بانڈ 008: آپریشن کراچی’ کی بات کی جائے یا اس کے کچھ ہی سالوں بعد پاکستان میں ریلیز ہونے والی انٹرنیشنل فلم ‘ٹائیگر گینگ’ کی، دونوں کا ہی نام انگریزی میں تھا۔ ان فلموں میں کی کاسٹ میں غیر ملکی اداکار تھے۔

لیکن 1977 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘بلیک کیٹ’، 1978 کی فلم ‘پلے بوائے’، 1982 کی فلم ‘ایجنٹ ڈبل او نائن’ اور 1983 کی ‘بارڈر بلٹ’ جیسی اردو زبان کی فلموں کے نام بھی انگریزی میں رکھے گئے۔

علاوہ ازیں پروڈیوسرز نے ہالی وڈ کرداروں سے متاثر ہو کر 1991 میں ‘ریمبو’ اور ‘کوبرا’ جب کہ 2013 میں ‘سپر گرل’ بھی بنائی۔

فلم ساز و اداکار شان نے 1999 کی فلم ‘گنز اینڈ روزز ایک جنون’ اور ‘او ٹو ون’ (021) میں کام کیا جن کے نام انگریزی میں تھے لیکن ان دونوں فلموں کو بنایا بھی انگلش فلموں کی طرز پر تھا۔

پاکستانی فلموں کے ناموں کی بھارتی گانوں کے ڈائیلاگ سے مشابہت

پاکستان میں کئی فلمیں ایسی بھی بنی ہیں جن کے نام بھارتی گانوں کے ٹائٹل سے مشابہت رکھتے ہیں۔

ایسی ہی فلموں میں نوے کی دہائی میں ریلیز ہونے والی ‘کڑیوں کو ڈالے دانہ’، ‘ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ’، ‘گھر کب آؤ گے’ اور ‘دل ٹوٹے ٹوٹے ہو گیا’ سرِفہرست ہیں۔ جن کے نام ‘ہم آپ کے ہیں کون’، ‘تری مورتی’، ‘بارڈر’ اور ‘بچھو’ کے گانوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔

اسی طرح بالی وڈ فلم ‘شعلے’ میں گبر سنگھ کے مشہور ڈائیلاگ ‘جو ڈر گیا، سمجھو مر گیا’ پر پاکستان میں سجاد گل نے 1995 میں ‘جو ڈر گیا، وہ مرگیا’ کے نام سے فلم بنائی۔

علاوہ ازیں بالی وڈ فلم ‘کل ہو نہ ہو’ کے ڈائیلاگ ‘چھ دن لڑکی ان’ سے ملتے جلتے نام پر پاکستانی فلم ‘سات دن محبت ان’ ریلیز کی گئی۔

ٹیلی وژن ڈراموں کے ناموں پر فلمیں

پاکستان میں کئی ایسی بھی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں جن کے نام پاکستانی ڈراموں پر مبنی ہیں۔ جس سے ڈراموں اور فلم میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔

اسی کی دہائی کے مقبول ڈرامے ‘سونا چاندی’ اور ‘ففٹی ففٹی’ کے نام پر پاکستانی فلمیں بھی بنائی گئیں۔

اس کے علاوہ نوے کی دہائی کے ڈرامے ‘عروسہ’ ،’وارث’، ‘چاند گرہن’، ‘ہوائیں’، ‘دیواریں’ اور ‘جانگلوس’ نام سے بھی فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 1985 میں ‘ڈائریکٹ حوالدار’ نامی فلم اداکار و ہدایت کار عرفان کھوسٹ نے بنائی تھی جو پولیس ڈرامے ‘اندھیرا اجالا’ کا فلمی ورژن تھا۔

اس فلم کی ریلیز کے وقت ڈرامہ ‘اندھیرا اجالا’ عوام میں بے حد مقبول تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس ڈرامے کے فلمی ورژن کو بھی کافی پسند کیا گیا۔

ایسی فلمیں جن کا نام رکھنا سب سے آسان تھا!

فلموں کے نام کا انتخاب کرنے کے لیے بھی اتنی ہی محنت درکار ہوتی ہے جتنی اسے بناتے وقت کی جاتی ہے۔

لیکن وہیں کئی ایسی فلمیں بھی ریلیز ہوئی ہیں جن کا نام رکھنے پر زیادہ محنت نہیں کی گئی اور ‘لو ان یورپ’، ‘لو ان نیپال’، ‘لو ان لندن’، ‘لو ان جنگل’ اور ‘لو ان ہالینڈ’ جیسی فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنیں۔

جب اسی کی دہائی میں مشہور فلم ‘داتا’ کا سیکوئل بنایا گیا تو اس کے لیے ‘سن آف داتا’ کے نام کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان اور بھارت دونوں ہی ملکوں میں اس طرح کے نام کا تصور نہیں تھا۔

بعد ازاں ‘سن آف’ کا نام متعدد فلموں کے ساتھ جوڑا جانے لگا۔

بھارتی ٹیلی وژن سیریز ‘الف لیلیٰ’ سے مرعوب ‘سن آف الہ دین’ اور ‘سن آف علی بابا’ کی طرح پاکستان میں بھی ‘سن آف منور ظریف’ اور ‘سن آف پاکستان’ جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں۔

اسی طرح پاکستان میں کئی ایسی فلمیں بھی ریلیز ہوئیں جن کے نام میں مسٹر، مس، میڈم اور لیڈی کا استعمال کیا گیا۔

ساٹھ کی دہائی میں بالی وڈ فلم ‘مسٹر ایکس ‘ کے بعد سے پاکستان میں ‘مسٹر رانجھا’، ‘مسٹر بدھو’، ‘مسٹر 420’، ‘مسٹر چارلی’، ‘مسٹر تابعدار’، ‘مسٹر کے ٹو’ اور ‘مسٹر رومیو’ سنیما کی زینت بنی۔

یہاں میڈم شمیم آرا کی فلم ‘مس کولمبو’، ‘مس ہانگ کانگ’، ‘مس استنبول’ اور ‘مس سنگاپور’ قابلِ ذکر ہیں۔

اسی طرح سن 1974 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘مس ہپی’ کے بعد ‘مس کیلوپیٹرا’، ‘مس فتنہ’ اور ‘مس بنکاک’ جیسی فلمیں پاکستان کے سنیما گھروں میں ریلیز ہوئیں۔

علاوہ ازیں پاکستان میں ‘لیڈی کمانڈو’، ‘لیڈی اسمگلر’ اور ‘لیڈی باس’ کے ساتھ ساتھ ‘میڈم باوری’ اور ‘میڈم رانی’ جیسی فلمیں بھی بنی جنہیں اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں بھی ریلیز کیا گیا۔

بعد ازاں جب ‘میڈم’ کا زور ٹوٹا تو ‘حسینہ 420’، ‘حسینہ ایٹم بم’ اور ‘حسینہ گولیمار’ جیسی پاکستانی فلمیں سنیما کی زینت بنی۔

مرکزی کرداروں کے نام پاکستانی فلمیں

کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ بھارت میں گوندا، اکشے کمار اور سلمان خان کے نام سے فلم کا ٹائٹل رکھا گیا ہو؟ یا ہالی وڈ میں آرنلڈ شوارزنیگر اور ہاریسن فورڈ کے نام پر فلم بنی ہو؟

البتہ پاکستان میں ایسا ہوا ہے کہ کامیڈین رنگیلا اور منور ظریف کی مقبولیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے 1973 میں فلم ‘رنگیلا اور ‘منور ظریف’ بنی۔

بعد ازاں نئے اداکاروں بوبی اور جولی کو لے کر پاکستانی فلم ‘بوبی اینڈ جولی’ بنائی گئی۔

‘رنگیلا اور منور ظریف’ نے تو باکس آفس پر خوب کامیابیاں سمیٹیں لیکن ‘بوبی اینڈ جولی’ ناکام رہی۔

البتہ اس فلم میں گلوکار عالمگیر کے گائے ہوئے گانے ‘دیکھا نہ تھا’، ‘ تم کیا ملے’ اور ‘اتنا تجھ کو ‘ ہی لوگوں کو یاد ہیں۔

پاکستانی فلموں کے انٹرنیشنل نام

اسی اور نوے کی دہائی میں جب پاکستانی فلمیں زوال کا شکار تھیں تو ایسے میں جان محمد جیسے ہدایت کاروں نے ملٹی اسٹار فلمیں بنانے کے لیے بیرونِ ملک کا رخ کیا۔

فلموں کے بیرونِ ملک کا رُخ کرتے ہی ان کے نام بھی اس کا عنصر آیا اور ​’ہانگ کانگ کے شعلے’، ‘انٹرنیشنل گوریلے’، ‘منیلا کے جاسوس’، ‘عالمی جاسوس’، ‘منیلا کی بجلیاں’، ‘منیلا کے جانباز’ اور ‘بنکاک کے چور’ جیسی فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنی۔

چوں کہ ان فلموں میں سنیما میں بیٹھے شائقین کو دنیا بھر گھومنے کا موقع ملتا تھا اسی لیے یہ باکس آفس پر بھی کامیاب ہوئیں۔

فلموں کے بے معنی نام

پاکستان میں بہت سی ایسی فلمیں بھی بنیں جن کے نام کا مطلب لوگوں کو آج تک سمجھ نہیں آیا۔

ہدایت کار یاسر نواز کی فلم ‘مہرالنساء وی لب یو’ ان میں ایک ہے جب کہ ‘بھائی لوگ’ اور ‘سوال سات سو کروڑ ڈالر کا’ بھی ایسی ہی فلموں شامل ہیں۔ سن 1997 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘راجہ پاکستانی’ کے لیے اس ٹائٹل کا انتخاب کرنا بھی لوگوں کو آج تک سمجھ نہیں آیا۔

اسی طرح فلم ‘پنجاب نہیں جاؤں گی’ اور 1986 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘شادی میرے شوہر کی’ کا ٹائٹل بھی الگ سا ہے۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔