فلمیں

‘پیچھے تو دیکھو’ کو دیکھ کر ‘اوم شانتی اوم’ اور ‘بھول بھلیاں’ کیوں یاد آتی ہیں؟

Written by Omair Alavi

کراچی — 

پاکستان میں زیادہ تر ایکشن، رومانوی اور کامیڈی فلمیں بنائی جاتی ہیں لیکن حال ہی میں ملک بھر کے سنیما گھروں میں ہارر کامیڈی فلم ‘پیچھے تو دیکھو’ ریلیز ہوئی ہے۔لیکن یہ فلم شائقین پر وہ اثر نہ چھوڑ سکی جس کی اس سے توقع کی جارہی تھی۔

تاہم ’’پیچھے تو دیکھو‘’ ایک ایسی کوشش ہے جس کو دیکھ کر فلم سازمستقبل میں اس اسٹائل کی فلمیں بنانے کا سوچ سکتے ہیں۔

اس فلم کی ہدایات سید عاطف علی نے دی ہیں جب کہ اس میں اداکار یاسر حسین، عادی عدیل امجد ، نوال سعید اور سارہ علی خان نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔

فلم کی کہانی پاکستان کے صوبے سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک ایسے بنگلے کے گرد گھومتی ہے جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہاں جانے والا کوئی بھی شخص زندہ واپس نہیں آتا اور اس کی لاش قریب میں موجود ایک جھیل سے ملتی ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ دو دوست زلفی اور ٹیپو (یاسر حسین اور عادی عدیل امجد) ‘ڈان’ پھول ماشی (عامر قریشی) کے غنڈوں سے بچنے کے لیے اس بنگلے میں چھپ جاتے ہیں جہاں کوئی بھی جانے سے گھبراتا ہے۔

دونوں بنگلے کی نگران خواجہ سرا ‘رانی’ سے ملنے کے بعد وہیں ٹھہر جاتے ہیں، لیکن پھر ان کی ملاقات بنگلے میں موجود دو دوشیزاؤں شبنم اور ممتاز سے ہوتی ہے۔ پہلے تو وہ دونوں ان کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں لیکن پھر ان کی حقیقت سامنے آنے کے بعد ان کی مدد کرتے ہیں۔

یہ فلم 17 جون سے پاکستانی سنیما گھروں میں ریلیز کی گئی ہے۔ مگر سنیماؤں میں فلم کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔یہ فلم دیکھنے کے لیے آنے والوں میں بچے زیادہ تھے جو ہوسکتا ہے یاسر حسین اور عادی عدیل امجد کی موجودگی کی وجہ سے اپنے گھر والوں کے ساتھ اسے دیکھنے آئے ہوں۔ کیوں کہ دونوں کی کامیڈی کی وجہ سے سنیما ہال میں بچوں کے قہقہوں کی گونج سنائی دیتی رہتی ہے۔

‘پیچھے تو دیکھو’ کی کہانی میں کافی جھول نظر آئے، جیسے ندیم کے کردار کا کیا انجام ہوا؟ بھوت بنگلے میں روحوں کے بھٹکنے کی کیا وجہ تھی؟ اور زلفی کا فون کیسے گھر سے برآمد ہوگیا ؟ لیکن اگر اس فلم کا موازنہ ہدایت کار کی پچھلی فلم ‘پری’ سے کیا جائے تو یہ کافی بہتر کوشش ہے۔

معروف امریکی اداکار ٹیری ٹامس کی تصویر کوبھوت بنگلے میں نصب کرنا جتنا مضحکہ خیز لگتا ہے اتنا ہی اس بارے میں سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ اگر ہارر جیسے سنجیدہ شعبے کو تھوڑا سنجیدگی سے لیا جاتا تو یقیناً یہ فلم اچھی کاوش ثابت ہوسکتی تھی۔

‘پیچھے تو دیکھو’ سے شائقین محظوظ ہوں یا نہ ہوں لیکن اس سے اُن فلم سازوں کو ضرور حوصلہ ملے گا جو کامیڈی اور رومانوی فلموں کے علاوہ کسی اور اسٹائل کی فلم بنانا چاہتے ہیں۔

اس فلم میں کسی بڑے اسٹار کو کاسٹ کیا گیا ہے نہ ہی اس کی عکس بندی کسی دوسرے ملک میں ہوئی ہے۔کم بجٹ کے لحاظ سے یہ ایک مناسب فلم ہے جسے تھوڑی محنت سے مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔

تاہم اداکاراؤں کی نا تجربہ کاری، کہانی میں جھول اور سید عاطف کی کمزور ہدایت کاری کی وجہ سے فلم اب تک شائقین پر وہ تاثر نہیں چھوڑ سکی ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

‘فلم میں یاسر حسین اور عادی عدیل کی کامیڈی کے سوا کچھ نہیں’

‘پیچھے تو دیکھو’ دیکھنے والے شائقین کو جتنی بار بھی ہنسی آئی ہوگی تو وہ ممکن ہے یاسر حسین کے کسی لطیفے پر آئی ہو یا عادی کی کسی جگت پر۔دونوں نے اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف تو کیا ہےلیکن کئی جگہوں پر ان کا ‘ٹوائلٹ ہیومر’ مایوس کر گیا۔

دونوں کے علاوہ اس فلم میں دیکھنے کو کچھ خاص نہیں تھا۔ فلم کے انٹرول سے پہلے کہانی بالی وڈ فلم ‘بھول بھلیاں’ سے ملتی جلتی لگی جب کہ بریک کے بعد ‘اوم شانتی اوم’ کی طرح کا ایک موڑ آیا جس میں فلم کے تین کردار اپنا ماضی فلیش بیک کے ذریعے سناتے ہیں۔

ایک ہدایت کار فلم کے فلیش بیک سین میں بہت کچھ کرسکتا تھا مگر بجٹ کی وجہ سے شاید ہدایت کار نے گاڑی کی نمبر پلیٹ نہیں دیکھی جو موجودہ زمانے کی تھی جب کہ ان دونوں گانوں پر بھی دھیان نہیں دیا جو کردار اس سین میں گنگنا رہے تھے۔

فلیش بیک شائقین کو سن 1971 میں لے جاتا ہے جب کہ احمد رشدی کا مشہور گیت ‘دل کو جلانا’ اور ‘آئینہ’ فلم کا ‘مجھے دل سے نہ بھلانا’ بالترتیب 1975 اور 1977 میں ریلیز ہوا تھا۔

اس کے علاوہ ایک دو سین میں اداکارہ نوال اور سارہ نے وہ کپڑے پہنے ہوئے تھے جو ماضی کے بجائے موجودہ زمانے کے لگ رہے تھے۔

فلم میں یاسر حسین اور عادی کے چند ڈائیلاگز اور حرکات کو نامناسب کہا جاسکتا ہےجس پر سنیما میں موجود بچے تو ہنسے لیکن بڑے محظوظ نہیں ہوئے۔

اسکرپٹ اور موسیقی سے زیادہ اسپیشل ایفیکٹس پر توجہ

‘پیچھے تو دیکھو’ کے ہدایت کار سید عاطف علی اس سے قبل ایک ہارر فلم ‘پری’ بناچکے ہیں جو ناقص پروڈکشن اور کہانی کی وجہ سے باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئی تھی۔

سید عاطف کی موجودہ فلم میں اسکرپٹ اور موسیقی پر بظاہر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔سنیما سے باہرنکلنے کے بعد شائقین کو یا تو یاسر اور عادی کے ڈائیلاگ یاد رہ جاتے ہیں یا وہ پرانے گانے جو کردار گنگناتے ہیں نہ کہ وہ جو ان پر فلمائے گئےہیں۔

فلم کے جس پہلو پر سب سے زیادہ محنت کی گئی وہ اسپیشل ایفیکٹس تھے لیکن وہ بھی شاید لوگوں کو اس لیے بہتر لگے کیوں کہ کافی عرصے سے کسی پاکستانی فلم میں و ی ایف ایکس کا ایسا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔

اس فلم میں جس وجہ سے بھوت اور چڑیل دکھائے گیے وہ مضحکہ خیز لگے جب کہ جس سین میں بھوت اور چڑیلوں کو اڑتے دکھایا گیا وہ مناسب تھے۔ البتہ جہاں پانی والی چڑیل نظر آئی وہ ایفیکٹس قدرے بہتر تھے۔

بظاہر کم بجٹ میں بننے والی اس فلم میں اداکاروں کے کپڑے بھی زیادہ تبدیل نہیں کیے گئے ہیں جب کہ کئی سین تھیٹر کی طرح سیٹ پر ہی شوٹ کیے گئے ہیں۔

اس فلم کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس فلم کا بجٹ تھوڑا زیادہ ہوتا یا ہدایت کار اس پر مزید محنت کرتے تو شاید یہ شائقین کو پسند آسکتی تھیں۔

مگر اب شائقین کی امیدیں آئندہ ماہ ریلیز ہونے والی ہارر کامیڈی فلم ‘لفنگے’ سے وابستہ ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ شائقین کی امیدوں پر پورا اترپاتی ہے یا نہیں۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔