اسپورٹس

پاکستان کرکٹ کے وہ تاریخی مقابلے جب یقینی جیت گرین شرٹس کے ہاتھوں سے نکل گئی

Written by Omair Alavi

آئرلینڈ نے پاکستان کو 2007 کے ورلڈکپ میں شکست دی تھی۔

کراچی — 

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے دوسرے سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم ایونٹ سے باہر ہو گئی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان ٹیم کے ہاتھوں سے ورلڈ کپ کا کوئی انتہائی اہم میچ نکلا ہو۔ 

پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ایسے کئی میچز موجود ہیں جن میں ابتدائی طور پر نتیجہ پاکستان ٹیم کے حق میں جاتا ہوا دکھائی دیا لیکن آخر میں شکست ٹیم کا مقدر بنی۔

ٹی ٹوئںٹی ورلڈکپ میں ناقابلِ شکست رہنے والی بابر الیون نے اپنے ابتدائی پانچوں میچز زبردست انداز میں جیتے۔ بھارت اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کو شکست دینے والی گرین شرٹس سے شائقین کو امید تھی کہ وہ آسٹریلیا کو بھی سیمی فائنل میں زیر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

پاکستانی بلے بازوں نے جس طرح بیٹنگ کی اس کے بعد توقع تھی کہ بالرز آسٹریلوی بیٹنگ لائن کو ہدف تک پہنچنے نہیں دیں گے لیکن ماضی کے ایک مقابلے کی طرح آسٹریلوی وکٹ کیپر بلے باز میتھیو ویڈ کی جارحانہ بیٹنگ نے آخری وقت میں میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔

ایسے ہی چند میچز پر نظر ڈالتے ہیں جن میں پاکستان ٹیم فاتح دکھائی دے رہی تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے میچ کا نتیجہ یکسر مختلف آیا۔

ورلڈ کپ 1975: جب ایک وکٹ کے فرق سے ویسٹ انڈین ٹیم سیمی فائنل میں پہنچی

پہلے پانچ ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے چار کے سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔ یہ کارنامہ پانچ سیمی فائنل کا بھی ہوسکتا تھا اگر ویسٹ انڈیز کے خلاف لیگ میچ میں پاکستانی بالرز صرف ایک اور وکٹ حاصل کرلیتے۔

ورلڈکپ 1975 میں ماجد خان کی قیادت میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے سات وکٹ پر 266 رنز بنائے۔

پاکستان کے مجموعی اسکور میں ماجد خان، مشتاق محمد اور وسیم راجہ کی نصف سینچریاں شامل تھیں۔ جواب میں سرفراز نواز کی چار، نصیر ملک کی دو اور آصف مسعود، پرویز میز اور جاوید میانداد کی ایک ایک وکٹ نے ویسٹ انڈیز کو مشکلات میں ڈال دیا۔

جب ویسٹ انڈیز کی نویں وکٹ 203 رنز پر گری تو اسے جیت کے لیے مزید 64 رنز درکار تھے۔ ایسے میں وکٹ کیپر ڈیرک مرے کا ساتھ نمبر گیارہ پر بیٹنگ کرنے والے اینڈی رابرٹس نے دیا۔ دونوں نے بلے بازوں نے پاکستانی بالرز کو نہ وکٹ لینے دی اور نہ ہی رنز بنانے کا سلسلہ رکا۔

میچ کا فیصلہ آخری اوور کی چوتھی گیند پر ہوا جب اینڈی رابرٹس نے لیگ اسپنر وسیم راجہ کی گیند پر سنگل لے کر ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ڈیرک مرے 61 اور اینڈی رابرٹس 24 رنز کے ساتھ وکٹ پر موجود رہے۔

اس طرح ویسٹ انڈین ٹیم پاکستان کو سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر کر کے خود ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچ گئی۔

ورلڈ کپ 1987: جب ہوم کراؤڈ کے سامنے آسٹریلیا نے پاکستان کو شکست دی

سن 1975 کے بعد پاکستان نے 1979 اور 1983 کے ورلڈ کپ مقابلوں میں سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن آگے نہ بڑھ سکے۔

لیکن جب 1987 میں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان ٹیم سیمی فائنل کھیلنے گئی تو انہیں یقین تھا کہ وہ بغیر اسٹارز کے آسٹریلیا کی ٹیم کو شکست دے کر ایڈن گارڈن کلکتہ میں ہونے والے فائنل میں جگہ بنالے گی۔

ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے والی آسٹریلوی ٹیم نے 50 اوورز میں آٹھ وکٹ پر 267 رنز بنائے جس میں ڈیوڈ بون کے 65 رنز قابل ذکر تھے۔ 268 رنز کا ہدف پاکستان جیسی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کے لیے مشکل ہدف نہیں تھا لیکن مدثر نذر کا میچ سے قبل، اور وکٹ کیپر سلیم یوسف کا میچ کے دوران ان فٹ ہوجانا پاکستان کے خلاف گیا۔

اکستانی فاسٹ بالر سلیم جعفر کے آخری اوور میں نوجوان اسٹیو وا کے 18 رنز نے مخالف ٹیم کی پوزیشن مستحکم کردی۔

جواب میں جب نائب کپتان جاوید میانداد اور عمران خان وکٹ پر موجود تھے تو پاکستان کی جیت یقینی لگ رہی تھی، لیکن میانداد کے 70 اور کپتان عمران خان کے 58 رنز پر آؤٹ ہوتے ہی میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا اور پوری ٹیم 49ویں اوور میں 249 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔

پاکستان کی شکست کا مارجن وہی 18 رنز بنا جو سلیم جعفر نے آخری اوور میں دیے تھے۔

فاسٹ بالر کریگ مک ڈرمٹ کی پانچ وکٹوں نے پاکستان کو فائنل کی دوڑ سے نہ صرف باہر کیا بلکہ ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں پاکستان کی آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کی بنیاد رکھی۔

ورلڈ کپ 1996: جب کوارٹر فائنل میں بھارت کے خلاف اوپنرز کی بیٹنگ بھی کام نہ آئی

سن 1996 کے ورلڈ کپ میں جہاں پاکستان ٹیم بحیثیت دفاعی چیمپٔن شرکت کر رہی تھی وہیں میزبان بھارت کے کھلاڑی بھی سیمی فائنل میں جگہ بنانے کے لیے پرجوش تھے۔

بنگلور کے مقام پر بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 50 اوورز میں آٹھ وکٹ پر 287 رنز بنائے جس میں نوجوت سدھو کے 93 اور اجے جڈیجا کے دھواں دار 45 رنز شامل تھے۔

جس طرح بھارت نے آخری اوورز میں 80 کے لگ بھگ رنز کا اسکور میں اضافہ کیا، ٹھیک اسی طرح پاکستانی اوپنرز عامر سہیل اور سعید انور نے پہلے دس اوورز میں 84 رنز جوڑے۔ جس وقت یہ دونوں بلے باز وکٹ پر موجود تھے، اسٹیڈیم میں موجود تماشائی ایسے خاموش تھے جیسے میچ ہی نہیں ہو رہا۔

سعید انور کے 32 گیندوں پر 48 اور کپتان عامر سہیل کے 46 گیندوں پر 55 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد مقامی شائقین کی جان میں جان آئی۔ یکے بعد دیگرے وکٹیں گرنے کی وجہ سے پاکستان ٹیم 39 رنز سے یہ میچ ہار گئی۔

ورلڈ کپ 1999: جب پاکستان کو بنگلہ دیش نے شکست دی

سن 1999 سے قبل بنگلہ دیش نے کبھی پاکستان کو کسی انٹرنیشنل میچ میں شکست نہیں دی تھی۔ اس لیے جب دونوں ٹیمیں 1999 کے ورلڈ کپ کے دوسرے راؤنڈ میں آمنے سامنے آئیں تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان کو اس میچ میں کامیابی نہیں ملے گی۔

نارتھ ہیمپٹن کے مقام پر آف اسپنر ثقلین مشتاق کی پانچ وکٹوں کی بدولت پاکستان ٹیم نے بنگلہ دیش کو نو وکٹ پر صرف 223 رنز تک محدود رکھا جو ان فارم گرین شرٹس کے لیے مشکل ہدف نہیں تھا۔

پاکستان ٹیم کا آغاز تو اچھا نہیں تھا اور پانچ وکٹوں کے نقصان پر صرف 42 رنز بنے تھے۔ جب کپتان وسیم اکرم اور آل راؤنڈر اظہر محمود کریز پر موجود تھے تو لگ رہا تھا کہ گرین شرٹس ہدف کا تعاقب کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

دونوں آل راؤنڈرز کے آؤٹ ہوتے ہی بنگلہ دیش کو فتح نظر آنے لگی اور ثقلین مشتاق کے 21 اور معین خان کے 18 رنز بھی پاکستان کو اس شکست سے نہ بچا سکے۔

پاکستان کی پوری ٹیم 45ویں اوور میں 161 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی اور اس کامیابی سے بنگلا دیش کو ٹیسٹ اسٹیٹس ملنے میں مدد ملی۔

ورلڈ کپ 2007: جب آئرلینڈ نے پاکستان کو کامیابی سے محروم کیا

سن 2007 کے ورلڈ کپ میں ایک میچ ایسا بھی تھا جس میں پاکستانی بالرز کو ہدف ہی اتنا کم ملا تھا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔

جمیکا میں کھیلے گئے اس میچ میں آئرلینڈ نے ٹاس جیت کر بالنگ کا فیصلہ کیا، جسے بالرز نے پاکستان ٹیم کو 132 رنز پر آؤٹ کر کے درست ثابت کیا۔

جواب میں پاکستانی بالرز نے آئرش ٹیم کو زیر کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نیال اوبرائن کے 72 قیمتی رنز کی وجہ سے آئرلینڈ نے یہ میچ تین وکٹ سے اپنے نام کرلیا۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2007: جب مصباح کا اسکوپ پاکستان کو لے ڈوبا

پاکستانی شائقین کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا بے صبری سے انتظار تھا اور جب 2007 میں اس کا سلسلہ شروع ہوا تو شائقین کی توقعات کے مطابق گرین شرٹس نے ایونٹ کے فائنل میں جگہ بنائی۔

شعیب ملک کی قیادت میں پاکستان ٹیم کو ایونٹ میں ایک ایسا صدمہ پہنچا جس سے نکلنے میں انہیں بہت وقت لگا۔ بھارت کے خلاف فائنل مقابلے میں پاکستانی بالرز نے شاندار کارکردگی دکھا کر روایتی حریف کو پانچ وکٹ پر 157 رنز تک محدود کر دیا تھا، جواب میں پاکستانی بلے بازوں نے بھی ہدف کا تعاقب شاندار انداز میں کیا اور 18 اوورز تک اسکور کو 138 رنز تک پہنچا دیا۔

ٹورنامنٹ کے آخری اوور میں پاکستان کو جیت کے لیے 13 رنز درکار تھے اور ان فارم مصباح الحق کریز پر موجود تھے۔

بھارتی کپتان مہندرا سنگھ دھونی نے گیندر شرما کو تھمائی جن کی دوسری ہی گیند کو مصباح نے گراؤنڈ سے باہر پھینک دیا۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو جیت کے لیے چار گیندوں پر صرف چھ رنز درکار تھے، مصباح الحق نے ایک ایسا اسکوپ شاٹ کھیلا جس کا اختتام فائن لیگ پر گھڑے سری سانتھ کے ہاتھوں میں ہوا اور بھارت کو پانچ رنز سے کامیابی مل گئی۔

اس شاٹ کے ساتھ ہی بھارت نے پہلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت کر تاریخ رقم کردی، اور پاکستان ٹیم کو اچھی کارکردگی کے باوجود دوسری پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2010: جب سعید اجمل کے آخری اوور میں مائیکل ہسسی جوش میں آگئے

جمعرات کو کھیلے گئے پاکستان آسٹریلیا کے میچ سے قبل آخری بار یہ دونوں ٹیمیں ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں 2010 میں مدِ مقابل آئی تھیں۔ اُس وقت پاکستانی ٹیم دفاعی چیمپٔن تھی اور آسٹریلیا کے خلاف 191 رنز بنا کر تقریباً فائنل میں اپنی جگہ پکی بھی کر چکی تھی۔ لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔

ویسٹ انڈیز میں کھیلے گئے تیسرے ورلڈ کپ کے اس سیمی فائنل میں آسٹریلوی بلے باز مائیکل ہسسی پاکستانی بالرز کے سامنے ایسا ڈٹے کے آخر تک آؤٹ نہ ہوئے۔ ان کی دھواں دار بیٹنگ کی وجہ سے آسٹریلیا نے 192 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف ایک گیند قبل ہی حاصل کر لیا۔

آسٹریلوی وکٹ کیپر میتھیو ویڈ کی طرح مائیکل ہسسی نے بھی تین ہی چھکے مارے تھے، لیکن جہاں ویڈ نے معاملہ انیسویں اوور میں ہی نمٹا دیا تھا، وہاں مائیکل ہسسی کو چھکے مارنے والی گیندوں کے لیے بیسویں اوور کا انتظار کرنا پڑا تھا۔

مائیکل ہسسی نے 24 گیندوں پر ناقابلِ شکست 60 رنز بناکر پاکستان کو فائنل کی دوڑ سے باہر کر دیا تھا۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔