فلمیں

عراق سے امریکی فوج کے انخلا کے 10 سال مکمل: اس جنگ کے گرد گھومتی آٹھ مشہور فلمیں

Written by Omair Alavi

کراچی — 

تاریخ میں سال 2021 امریکہ کی فوج کے افغانستان سے انخلا کی وجہ سے تو یاد رکھا ہی جائے گا البتہ رواں برس مشرقِ وسطیٰ کے ملک عراق سے بھی امریکہ کی فوج کے انخلا کو 10 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ امریکی افواج کا عراق سے انخلا 10 برس قبل 18 دسمبر 2011 کو مکمل ہوا تھا۔

اس جنگ میں جہاں امریکہ اور عراق سمیت کئی ممالک کی افواج کو نقصان اٹھانا پڑا وہیں ہالی وڈ نے کئی بلاک بسٹر فلمیں بناکر خوب پیسے کمائے۔ان میں سے چند فلموں نے تو فلمی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ ‘آسکر’ بھی اپنے نام کیا جو کسی اعزاز سے کم نہیں۔

ایسا نہیں کہ 20 مارچ 2003 کو شروع ہونے والی عراق جنگ سے قبل ہالی وڈ نے عراق کی بات نہیں کی تھی البتہ زیادہ تر عراقیوں کو یا تو ایکشن فلموں میں ولن بناکر پیش کیا جاتا تھا یا پھر سابق عراقی صدر صدام حسین کا مذاق اُڑتا تھا۔

لیکن ہالی وڈ میں کئی فلمیں ایسی بھی بنیں جن میں اس جنگ پر اور اس سے پہلے عراق کے خلاف ہونے والی جنگوں کو سنجیدگی سے موضوع بنایا گیا جو کافی مقبول ہوئیں۔

دی وال (2017)

سال 2017 میں ریلیز ہونے یہ فلم صرف دو مرکزی کرداروں کے گرد گھومتی ہے جنہیں عراق وار کے آخری ایام میں ایک ایسے مشن پر بھیجا جاتا ہے جو خطرناک نہیں ہوتا۔

اسی دوران ان دونوں فوجیوں پر، جن کا کردار جان سینا اور ایرن ٹیلر جانسن نے ادا کیا، ایک عراقی اسنائپر حملہ کر دیتا ہے تو انہیں ایک دیوار کے پیچھے ہی سر چھپانے کا موقع ملتا ہے۔

کیسے یہ امریکی فوجی مدد آنے تک اپنا دفاع کرتے ہیں اور کیسے ایک ایسے دشمن کو ہرانے میں کامیاب ہوتے ہیں جو صرف سنائی دیتا ہے، اسی بات نے ہدایت کار ڈگ لی مین کی اس ‘لو بجٹ’ فلم کو مقبول بنایا۔

امریکن اسنائپر (2014)

عراق میں ہونے والی خانہ جنگی میں دو قسم کی فلمیں بن کر سامنے آئیں۔ ایک جنہوں نے امریکی افواج کی فتوحات کو عکس بند کیا تو دوسری جانب کچھ فلموں نے جنگ سے متاثر ہونے والوں کی زندگی پر توجہ دی۔

ہدایت کار کلنٹ ایسٹ وڈ کی یہ فلم ایک ایسے فوجی کے گرد گھومتی ہے جو عراق میں کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود ازدواجی زندگی میں ناکام رہا۔

‘امریکن اسنائپر’ میں بریڈلی کوپر نے ایک ایسے فوجی کا کردار بخوبی ادا کیا جسے اس کے کارناموں کی وجہ سے فوج میں اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ لیکن اس کی ازدواجی زندگی اور ذہنی کیفیت انہی کارناموں کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔

اس فلم کو اکیڈمی ایوارڈ نے چھ مختلف کیٹگریز میں نامزد کیا۔ جس میں بہترین فلم، بہترین اداکار اور بہترین فلم ایڈیٹنگ کی کی کیٹگری شامل تھیں۔ تاہم اسے بہترین ساؤنڈ ایڈیٹنگ میں ایک ایوارڈ ملا۔

گرین زون (2010)

عراق میں ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن (ڈبلیو ایم ڈی) کا نہ ہونا اب کوئی عجوبہ بات نہیں لگتی لیکن جس وقت میٹ ڈیمن کی یہ فلم سنیما میں ریلیز ہوئی۔ ڈبلیو ایم ڈیز ہتھیاروں کی غیر موجودگی سے بہت سارے لوگ لاعلم تھے۔

اس فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح ایک ایسے فوجی کی کوششوں کو روکا گیا جس نے ڈبلیو ایم ڈیز کی غیر موجودگی پر حکام بالا کی توجہ دلانے کی کوشش کی اور کس طرح سچ کی تلاش میں اسےہر قدم ہر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس فلم میں ایمی رائن، گریگ کینیار اور جیسن آئزیکس نے بھی اہم کردار ادا کیے جس کی ہدایت کاری پال گرین گراس نے دی۔

دی ہرٹ لاکر (2008)

دی ہرٹ لاکر کو اگر عراق وار کے گرد بننے والی فلموں میں بہترین فلم کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

فلم کی کہانی ایک ایسی ٹیم کے گرد گھومتی ہے جس کا مقصد تو بموں کو پھٹنے سے روکنا ہوتا ہے البتہ اس کام میں اسے کیا مشکلات پیش آتی ہیں اور کیسے ٹیم کا کام ان کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس فلم میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہدایت کارہ کیتھرین بگ لو نے اس فلم کے ذریعے کئی محاذ پر اپنا لوہا منوایا۔ ایک تو انہوں نے یہ فلم بناکر لوگوں کو بتایا کہ وار فلم بنانے کے لیے مرد ہدایت کار کا ہونا ضروری نہیں۔ دوسرا اس فلم پر بہترین ہدایت کارہ کا آسکر جیت کر وہ اکیڈمی ایوارڈ جیتنے والی پہلی خاتون ہدایت کارہ بن گئیں۔

دی ہرٹ لاکر کو ایک دو نہیں بلکہ اکیڈمی ایوارڈ نے مجموعی طور پر نو کیٹگریز میں نامزد کیا گیا تھا جس میں سے بہترین فلم، بہترن اسکرپٹ، بہترین ایڈیٹنگ، بہترین ساؤنڈ مکسنگ اور بہترین ساؤنڈ ایڈیٹنگ کے ایوارڈز اسے ملے۔

فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے جیریمی رینر کو بہترین اداکار کی کیٹگری میں نامزد تو کیا گیا لیکن بہترین سنیماٹوگرافی اور بہترین میوزک کی طرح انہیں بھی نامزدگی پر اکتفا کرنا پڑا۔

باڈی آف لائز (2008)

ہدایت کار رڈلی اسکاٹ کی اس فلم میں جہاں لیونارڈو ڈی کیپریو اور رسل کرو نے مرکزی کردار ادا کیے وہیں اس کی کہانی ‘ال سلیم’ نامی دہشت گرد کی تلاش کے گرد گھومتی ہے جس میں سی آئی اے کے ساتھ ساتھ اردن کی انٹیلی جنس ایجنسی بھی شریک ہوتی ہے۔

اس فلم کے ذریعے ناظرین کو یہ بھی بتایا گیا کہ بعض اوقات امریکی تحقیقاتی ادارے کے افسران اور ان کے ماتحت ایک صفحے پر نہیں ہوتے اور جب ایسا نہیں ہوتا تو کیا ہوتا ہے۔

اداکار آسکر آئزیک بھی اس فلم کے ذریعے ایک مقبول اداکار بن کر ابھرے جب کہ ایرانی اداکارہ گل شیفتہ فراهانی نے اس میں لیونارڈو ڈی کیپریو کی محبوبہ کا کردار ادا کیا۔

تھری کنگز (1999)

نوے کی دہائی کے آخر میں بننے والی ہدایت کار ڈیوڈ او رسل کی اس فلم کی کہانی اسی دہائی کے آغاز میں ہونے والی عراق وار میں شرکت کرنے والے تین امریکی فوجیوں کے گرد گھومتی ہے۔ جو ایکشن کی کمی کی وجہ سے ہیرو بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مشہور اداکار جارج کلونی، مارک والبرگ اور آئس کیوب نے اس کہانی میں ان تین فوجیوں کا کردار ادا کیا جو کربلا کے قریب ایک ایسے بنکر کو لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ان کی اطلاعات کے مطابق سونا چھپا ہوتا ہے۔

کیسے یہ تین فوجی اپنے افسروں کو گولی دے کر اس مشن پر نکلتے ہیں اور اس کا انجام کیا ہوتا ہے، یہ سب ‘تھری کنگز’ دیکھنے والے بخوبی جانتے ہیں۔

کرج انڈر فائر (1996)

ڈینزل واشنگٹن اور میگ رائن کی اس فلم کی خاص بات ا س کی کہانی تھی جو ایک ایسی امریکی فوجی کے گرد گھومتی ہے جو نہ صرف عورت ہے بلکہ جس کی ہلاکت کی وجہ سے کئی مرد فوجیوں کی جان بچتی ہے۔

کیا اسے امریکی فوج کا سب سے بڑا تمغہ میڈل آف آنر ملنا چاہیے یا نہیں؟ ہدایت کار ایڈورڈ زویک کی فلم اس کے گرد گھومتی ہے۔

ڈینزل واشنگٹن نے اس فلم میں ایک ایسے فوجی کا کردار ادا کیا جس کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے کہ وہ تحقیقات کرکے حکام کو سچائی سے آگاہ کرے کہ آیا کیپٹن والڈن کا کردار ادا کرنے والی میگ رائن نے میدانِ جنگ میں جو کیا، وہ ٹھیک تھا یا جو ان کے ساتھی افسر کہہ رہے ہیں، وہ درست ہے۔

یہ فلم ایک ایسے وقت ریلیز ہوئی جب امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں خاتون فوجیوں کو وہ اہمیت نہیں دی جارہی تھی جو ان کے مرد ساتھیوں کے حصے میں آتی تھی۔

اس فلم کے بعد انہیں اگر برابر نہیں سمجھا گیا تو کم از کم انہیں کم تر بھی نہیں کہہ سکے۔

Omair Alavi – BOL News

About the author

Omair Alavi

عمیر علوی ایک بہت معزز صحافی، تنقید کار اور تبصرہ نگار ہیں جو خبروں، کھیلوں، شوبز، فلم، بلاگ، مضامین، ڈرامہ، جائزوں اور پی ٹی وی ڈرامہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وسیع تجربے اور داستان سوزی کی خصوصیت کے ساتھ، وہ اپنے دلچسپ تجزیوں اور دلکش تقریروں کے ذریعے حاضرین کو مسحور کرتے ہیں۔ ان کی ماہری اور تعاون نے انہیں میڈیا اور تفریحی صنعت کا اہم شخصیت بنا دیا ہے۔